Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

کیا غزہ کی مزاحمت نے بن گوریون کینال منصوبہ بھی ناکام کر دیا ہے؟

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سات اکتوبر کو فلسطین کی اسلامی مزاحمت حماس اور جہاد اسلامی کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت پر لگائی جانے والی کاری ضربوں کے بعد غزہ پر مسلسل امریکی سرپرستی میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہزاروں معصوم بچے شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں خواتین اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ان تمام تر حالات میں یہ بات بھی واضح ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو معاشی، سیاسی اور جنگی میدانوں میں بد ترین رسوائی اور ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اسرائیل کے پاس تمام تر ٹیکنالوجی اور مغربی حکومتوں کی مدد موجو دہے لیکن تاحال پچھتر دن گزرنے کے باوجود غاصب صیہونی حکومت کسی بھی قسم کی کامیابی کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ا س ناکامی کا اعتراف خود اسرائیلی فوج کے عہدیدار بھی کر رہے ہیں اور پینٹا گون نے بھی اس ناکامی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے جس کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے عہدیداروں کے درمیان ایک سخت قسم کی چپقلش بھی پائی جا رہی ہے۔
جہاں فلسطینی عوام کی بہت بڑی قربانیوں کا ذکر ہے وہاں ساتھ ساتھ ان قربانیوں کے عوض حاصل ہونے والی بڑی کامیابیاں بھی شامل ہیں جو فلسطینیوں نے حاصل کی ہیں اور پوری دنیا کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔
غزہ پر جاری صیہونی جارحیت کے لئے دنیا بھر کے عوام کا مطالبہ ہے کہ اس جارحیت کو بند ہونا چاہئیے لیکن امریکہ اور اسرائیل اس جارحیت کو بند کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔اس کی ایک وجہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور اسرائیل سمیت یورپی حکومتوں کا مشترکہ سائبر انٹیلی جنس یونٹ فلسطینی مزاحمت کا نشانہ بنا اور ڈھائی سو انٹیلی جنس عہدیداروں کی گرفتاری اور تا حال رہی نہ ہونا ہے۔ اس عنوان سے راقم پہلے ہی تحریر لکھ چکا ہے۔
ایک اور اہم وجہ جو غزہ پر اسرائیل کی شدت پسندی کو ظاہر کرتی ہے وہ غاصب صیہونی حکومت کا بن گوریون کنال منصوبہ ہے۔ یہ بن گوریون منصوبہ کیا ہے؟ آخر یہ بن گوریون کون تھا؟
ڈیوڈ بن گوریون پولینڈ کا رہنے والا ایک صیہونی تھا۔ جو1886میں پیدا ہو ا، اور 1973ء میں موت آئی۔یہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے بانیوں میں سے ایک ممتاز بانی تھا۔فلسطین پر غاصب صیہونیوں کے تسلط کی تاریخ میں بن گوریون کو ایک بے رحم آدمی تھا جس نے فلسطین پر غاصب صیہونیوں کے تسلط کے وقت صیہونیوں کو باقاعدہ کہا تھا کہ فلسطین کے باشندوں کو بری طرح سے کچل دیا جائے اور انہیں فلسطین سے نکال دیا جائے اور صیہونیوں کو دنیا بھر سے لا کر یہاں آباد کیا جائے۔بن گوریون سنہ 1948ء میں فلسطین پر قائم کی جانے والی ناجائز ریاست اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم بھی بنا۔
بن گوریون کینال منصوبہ کیا ہے؟
بن گوریوں کینال کا منصوبہ سنہ1960ء کے آخری ایام میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی طرف سے بحیرہ احمر کو خلیج عقبہ کے جنوبی سرے سے بحیرہ روم کو جوڑنے کی تجویز تھی۔ خلیج عقبہ در اصل بحیرہ احمر کی ایک ایسی خلیج ہے جو جزیرہ نما سینا کے مشرقی اور جزیرہ نمائے عرب کے مغربی حصے میں واقع ہے۔ یعنی اس خلیج کے ساحل پر مصر، اردن، سعودی عرب اور غاصب اسرائیل کی سرحدیں لگتی ہیں۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں جس شہر ایلات پر یمن سے میزایل حملے ہوئے ہیں اسی ایلات شہر کو ہی دراصل خلیج عقبہ کا علاقہ لگتا ہے۔یہ ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں سے ایک عام کشتی بھی ایک گھنٹے سے کم وقت میں سعودی عرب کی بندر گاہ جدہ تک پہنچ سکتی ہے۔فلسطین پر صیہونیوں کے ناجائز تسلط کے وقت برطانیہ نے ایلات شہر جان بوجھ کر صیہونیوں کے حوالے کیا تھا اور اس کے لئے اردن اور فلسطین کے کئی علاقوں کو کاٹ دیا گیا تھا تا کہ یہ علاقہ صیہونیوں کے کنٹرول میں رہے۔
لہذا بن گوریون کینال منصوبہ میں اس راستے کی منصوبہ بندی بندرگاہی علاقہ ایلات اور اردن کی سرحد سے ہوتی ہوئی وادی عربہ(وادی عربہ بحیرہ مردار کے جنوب میں اسرائیل اور اردن کی سرحد کے درمیان ایک خطہ ہے) سے ہوتے ہوئے نیگیو (صحرائے نقب) کے پہاڑوں اور اردن کے پہاڑوں کے درمیانتقریبا ً ایک سو کلو میٹر تک بحیرہ مردار سے گزرکر تیار کی گئی تھی۔اسی طرح اس سے آگے اس میں غزہ کی پٹی کو منسلک کرنے کے بعد اس کو بحیرہ روم سے جوڑنا تھا۔

یہ بات یہاں واضح رہے کہ بحیرہ عرب اور بحیرہ روم کے مابین ایک رابطہ یعنی نہر سوئز پہلے سے ہی موجو دہے۔مصر میں ایک مصنوعی سمندری راستہ جو جہازوں کو شمالی اور بحر اوقیانوس اور شمالی بحر ہند کے درمیان براہ راست راستہ فراہم کرتا ہے وہ یہی نہر سوئز کا راستہ ہے جس سے سفر کا فاصلہ کم اور وقت بھی کم لگتا ہے۔
نہر سوئز ایشیاء اور یورپ کے درمیان مختصر ترین سمندری راستہ ہے اور اس وقت دنیا کی 13فیصد سمندری تجارت کے لئے یہی راستہ استعمال کیا جا تا ہے۔
حالیہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی اسرائیل کی انتہائی جارحیت کو دیکھنے کے بعد مغربی ممالک کی سیاسی سوسائٹی میں یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل در اصل غزہ کو اس لئے تباہ و برباد کر رہی ہے کیونکہ سنہ 1960ء سے تاحال اسرائیل کا بن گوریون کینال منصوبہ ناکامی کا شکار ہے۔در اصل بن گوریوں کینال کا منصوبہ نہر سوئز کا متبادل بھی ہے او ر مکمل طور پر غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے کنٹرول میں بھی رہے گا یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی حکومتیں سمندر کے اس راستے پر کنٹرول قائم کرنے کے لئے غاصب صیہونی حکومت کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔
نہر سوئز کی مختصر تاریخ:
نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گزر گاہ ہے۔ جس کی قدیم تاریخ فرعون کے زمانہ کی ہے کہ اس نہری راستہ کی ابتداء فرعون نے کی تھی۔ بہر حال قدیم ترین تاریخ سے صرف نظر کرتے ہوئے زمانہ وسطی اور جدید زمانہ کی تاریخ قارئین کے لئے پیش ہے۔یہ نہر سنہ1858ء میں فرانس کی ایک کمپنی نے تعمیر کی تھی اور پھر 99سالہ لیز پر اسے اپنے پاس رکھا۔ سنہ1868ء میں سوئز کینال کو کھول دیا گیا اور یہ تجارتی گزر گاہ بن گئی۔سنہ1875ء میں سوئز کینال کو برطانیہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر اپنے استعماری یعنی کالونیئل نظام کا حصہ بنا لیا۔سنہ1888ء میں قسطنطینیہ بین الاقوامی کنونشن میں اس کینال کے آزاد استعمال پر اتفاق کر لیا گیا۔سنہ1956ء میں جمال عبد الناصر نے سوئز کینال کو مصر کی قومی ملکیت میں شامل کر لیا۔سنہ1956ء میں ہی برطانیہ اور اسرائیل نے مصر کے اس فیصلہ کے خلاف مصر کی خود مختاری پر حملہ کر دیا اور نہر سوئز پر سہ فریقی جنگ کاآغاز ہو گیا۔سنہ1957ء میں سوئز کینال کو دوبارہ سے کھول دیا گیا۔سنہ1961میں جمال عبد الناصر کا منصوبہ شروع ہوا اور بڑے جہازوں کو یہاں سے گزرنے کی اجازت دی گئی۔سنہ1967ء میں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں مصر نے سوئز کینال کو بند کر دیا۔سنہ1975ء میں مصر کے صدر انوار السادات نے سوئز کینال کو کھول دیا۔
اسرائیل کیوں بن گوریون کینال بنانا چاہتا ہے؟
سنہ1888ء میں قسطنطینیہ بین الاقوامی معاہدے میں مغربی حکومتوں نے خود سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جنگ اور امن دونوں کے زمانہ میں سوئز کینال کا راستہ سمندری تجارت اور بحری جہازوں کے لئے کھلا رہے گا۔
پہلی مرتبہ اس کینال کو اس وقت بند کیا گیا جب غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو سرزمین فلسطین پر سنہ1948ء میں قائم کیا گیا تھا اور لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم اس موقع پر مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے سوئز کینال کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا اور بعد ازاں سنہ1956ء میں اس کینال کو مصر کی قومی تحویل میں لے لیاگیا۔مصر نے سنہ1948ء سے سنہ1950ء کے درمیان اس سمندری راستے میں اسرائیل کے کئی ایک تجارتی جہازوں کو افریقہ اور دوسرے ممالک جانے سے روک دیا تھا جس سے صیہونیوں کو بڑے پیمانہ پر معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔صیہونیوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر مصر کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔اسی طرح سنہ1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران بھی مصر نے اس راستہ کو بند کر دیا جو تقریبا آٹھ سال بند رہی جس سے مغربی حکومتوں اور غاصب صیہونی حکومت کو معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔اس تمام تر صورتحال میں فلسطین پر قابض صیہونی ریاست اور فلسطینیوں کی قاتل صیہونی ریاست کو شدید معاشی نقصان کا سامنا ہوا یہاں تک کہ خلیج فارس سے تیل درآمد کرنے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔اسی طرح مشرقی افریقہ اور ایشیاء کے ساتھ تجارت بھی بند ہوگئی۔

غاصب صیہونی حکومت نے اسی زمانہ میں ہی سمندری راستے پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔یہ وہ حالات تھے کہ جن میں اسرائیل نے بن گوریون کینال کو سوئز کینال کے متبادل کے طور پر تجویز کیا تھا جس پر برطانیہ اور امریکہ نے مکمل تعاون کا اظہار کیا کیونکہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں بھی یہی چاہتی تھیں کہ ایشیاء اور یورپ کے ساتھ ملنے والا سمندری مختصر راستہ مصر یا کسی عرب ملک کے پاس نہیں بلکہ غاصب اسرائیل کے پاس ہونا چاہئیے تا کہ دنیا کی تجارت پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی جا سکے۔
اسرائیل کی تجویز کردہ بن گوریون کینال کی تعمیر سے جہاں دنیا کی سمندری تجارت خطرے میں ہو گی وہاں ساتھ ساتھ عرب ممالک کی تجارت اور ترقی پر بھی منفی اثر ہو گا کیونکہ یہ متبادل راستہ سوئز کینال کی افادیت اور مصر کے لئے فراہم کردہ معاشی فائدہ کو بھی نابود کرنے کا منصوبہ ہے۔سوئز کینال مصر کی معیشت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔اس نہر سے گزرنے والے بحری جہازوں سے ٹول ٹیکس اور ٹرانزٹ فیس وصول کی جاتی ہے جو مصر کی معیشت میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق سنہ2021ء میں تقریبا سوئز کینال سے 20649جہاز گزرے ہیں جو کہ سنہ 2020ء کے مقابلہ میں 10فیصد زیاد ہے۔اسی طرح سنہ2022ء میں ٹرانزٹ فیس کی مد میں مصر کو سالانہ آمدنی 08ارب ڈالر وصول ہوئے ہیں۔سوئز کینال نے 30جون سنہ2023کو ختم ہونے والے اپنے مالی سال کے لئے 9.4ارب ڈالرز کی سالانہ آمدنی کے ساتھ ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔بہرحال نہر سوئز مصر کا ایک بہترین اقتصادی مرکز ہے جو نہ صرف ملک کی معیشت کے لئے اہمیت کا حامل ہے بلکہ بین الاقوامی تجارت کو آسان بنانے اور موثر بنانے کی صلاحیت رکھنے والا ایک اہم راستہ ہے۔
اگر غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی تجویز کردی بن گوریون کینال تعمیر ہو جاتی ہے تو پھر مصر کو ایک بڑا مالیاتی جھٹکا لگے گااور معیشت کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔بن گوریون کینال کا منصوبہ اگر آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ موجودہ 193کلومیٹر سوئز کینال سے تقریبا ایک تہائی لمبا ہو گا اور جو بھی بن گوریون کینال کو کنٹرول کرے گا وہ تیل، اناج اور جہاز رانی کے لئے عالمی سپلائی کے راستوں پر بہت زیادہ اثر ورسوخ رکھنے کی صلاحیت پیدا کر لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، یورپی حکومتیں مشترکہ طور پر غاصب صیہونی حکومت کی ہر جارحانہ اور سفاکانہ کاروائی کی پشت پناہی میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ ہیں۔
غزہ کیوں اہمیت رکھتا ہے؟
غزہ کی اس تمام تر منصوبہ میں کیا اہمیت ہے؟ یہی سوال سمجھنے کے لئے ہی مندرجہ بالا بحث کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔امریکہ نے بن گوریون کینال کے منصوبہ کو مکمل کرنے کے لئے اسرائیل کو صحرائے نقب میں 520نیوکلئیر بم استعمال کرنے کی تجویز دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ غزہ کو زمین بوس کر دیا جائے اور نہر کو سیدھے فلسطین سے نکال کر منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جائے۔امریکی تجویز میں اس طرح کی حکمت عملی میں مالی اخراجات کی بچت بھی کی جا سکتی ہے۔تاہم غزہ میں بائیس لاکھ فلسطینیوں کی موجودگی نہ صرف غاصب صیہونیوں کے لئے بلکہ امریکہ کے منصوبوں کے لئے بھی ایک بڑی رکاوٹ ے طور پر موجود ہے۔اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے امریکہ اور اسرائیل مشترکہ طور پر غزہ کے معصوم انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔غزہ سے نکلے بغیر اسرائیل کبھی بھی بن گوریون کینال منصوبہ کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا اور غزہ کے عوام کی موجودگی اور غزہ میں اسلامی مزاحمت کے وجود کی برکت سے غاصب صیہونیوں اور امریکیوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے امریکہ کے بنائے ہوئے جنگی منصوبوں کے تحت ہی غزہ کے شمال پر بدترین اور ظالمانہ بمباری کی تا کہ شمال سے لوگوں کو نکال کر جنوب کی طرف دھکیل دیا جائے۔فلسطینی سینٹرل بیورو آف اسٹیٹسٹیکس کے اعدادو شمار کے مطابق چار لاکھ سے بھی زیادہ فلسطیی شمال غزہ سے جنوب غزہ تک بے گھرہو چکے ہیں۔آٹھ لاکھ فلسطینی شمال غزہ میں غاصب صیہونیوں کی نسل کش کاروائیوں کا شکار ہیں۔غزہ میں اب تک بیس ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔شہید ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل جارحیت میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی حکومتوں کا داخل ہونا واضح طور پر ایک اشارہ ہے کہ مغربی حکومتیں سمندری راستوں پراپنا مکمل تسلط قائم کرکے ایشیاء کے ممالک کو محتاج بنانا چاہتی ہیں اور ایشیائی ممالک میں اس کام سے سب سے زیادہ تجارتی نقصان چین اور روس ہو پہنچنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔پہلے ہی اسرائیل کا سائبر انٹیلی جنس یونٹ 8200جس کو فلسطینی مجاہدین نے حملہ کر کے ڈھائی سو انٹیلی جنس عہدیداروں کو گرفتار کیا تھا وہ سب کے سب ایشیائی ممالک کو کمزور کرنے اور ایشیائی ممالک کی حکومتوں کو گرانے سمیت نہ جانے کیسے کیسے ناپاک منصوبے بنا رہے تھے۔اگر آج کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ صرف فلسطین کے ساتھ ہو گا تو یہ غلط ہے کیونکہ بن گوریون کینال اور سائبر انٹیلی جنس یونٹ جیسے بھیانک منصوبوں نے واضح کر دیا ہے کہ غاصب اسرائیل کسی کا دوست نہیں ہے۔اسی طرح جو ممالک اور حکومتیں آج امریکہ پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں ان کو جان لینا چاہئیے کہ امریکی حکومت کی ایک طویل تاریخ دھوکہ دہی اور فراڈ سے بھری پڑی ہے۔

غزہ کی پائیدار مزاحمت نے جہاں امریکہ اور مغربی حکومتوں کے کئی ایک ناپاک منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے اسی طرح ایک بڑا منصوبی بن گوریون کینال بھی ایسا لگتا ہے کہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔مزاحمت جاری ہے اور اس مزاحمت سے ہی فلسطینی عوام نے عزت و شرف کا راستہ اختیار کیا جس پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی عوام کے ہاتھ مضبوط کریں اور غاصب صیہونی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan