Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

دوریاستی حل نا منظور، حکومت پاکستان قائد اعظم ؒ کے موقف پر قائم رہے: ڈاکٹر خالد قدومی

لاہور(مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا ہے دو ریاستی حل پر بات کرنے سے خاموشی زیادہ بہتر ہے۔ دوریاستی حل منظور نہیں، پاکستان کو چاہیے وہ قائد اعظمؒ کے موقف کیساتھ کھڑا رہے۔ عالمی فورمز پر فلسطینیوں کے حق میں اسرائیل کیخلاف پاکستان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، اسرائیل کیساتھ جاری جنگ نظریاتی جنگ ہے، طوفان الاقصیٰ نے ایک لمبے عرصے کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل روک دیا ہے، اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار ابن غفیر نے کھلے عام اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فلسطینیوں کو جینے کا کوئی حق نہیں، یہ استحقاق صرف اسرائیل کو حاصل ہے۔گزشتہ روز لاہور میں یونیفائیڈ میڈیا کلب کے زیر اہتمام نشست میں سنیئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اسی طرح اسرائیلی نصاب میں یہ پڑھایا جاتا ہے اہلیان غزہ کو جلانا اور اسرائیلیوں کو باقی رکھنا ہے، یہی وجہ ہے 7 اکتوبر کا حملہ اپنی نوعیت یعنی نظریے نہیں بلکہ اپنی شدت کی وجہ سے سرپرائز تھا، ورنہ عرصوں پر محیط یہ جنگ نظریاتی جنگ ہے۔ ڈاکٹر خالد قدومی نے جنگ کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا سفارتی سطح پر دنیا اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے تقسیم سے متعلق قرار داد میں 45 فیصد حصے پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جبکہ 55 فیصد پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی منظوری دی۔ قانونی طورپر ان قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا جبکہ اس کے برابر قتل عام جاری رہا۔ 1991 میں اسرائیل نے خودساختہ طورپر فلسطین کے ٹکڑے کیے۔ 80 فیصد حصے پر مکمل طور پر اسر ائیل کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ باقی 20 فیصد میں القدس کو آن ٹیبل ہی نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح بقیہ حصے کو بھی مزید تین حصوں میں تقسیم کیا، اگر اس کے بعد بھی حماس مزاحمتی راہ نہیں اپناتا تو کیا کرتا؟۔ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا طوفان الاقصیٰ کی تیاری بہت پہلے سے جاری تھی، یہ طوفان دراصل 2021 میں ہونیوالے سیف القدس کی توسیع ہے جو 5 دن تک جار ی رہی۔ 7 اکتوبر یوم کپور کی وجہ سے محض فیلڈ سلیکشن تھی۔ اسرائیل کی طرف سے بچوں اور عام لوگوں پر بربریت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسرائیل حواس باختہ ہو کر جنگ مکمل طور پر ہار چکا ہے،ہسپتالوں پر ٹینک چڑھانے سے معلوم ہوتا ہے وہ اندر سے کتنا خوفزدہ ہے۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ پاکستانی عوام نے شعوری طور پر فلسطین کے حق میں اپنے تئیں آواز بلند کی،تاہم سرکاری سطح پر باہمی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان محض دھمکی دیکر اپنی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے شاہ فیصل کا حوا لہ دیتے ہوئے کہا 1973 میں سعودی بادشاہ نے صرف دھمکی دی اور اس کے اثرات نمایاں ہوئے۔ 2018 میں حماس کی پالیسی میں تبدیلی محض ایک تجویز تھی، اس وقت ہم نے یہ بات سامنے رکھی کہ اگر دو ریاستی حل پر اہلیان فلسطین نے رضامندی کا اظہار کیا تو ہم بھی اس کی پشت پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، تاہم، عوام نے ہمارا ساتھ دیا جبکہ 7 اکتوبر سے پہلے خود اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل کی کوئی بات سامنے نہیں تھی۔ حماس نے حملہ کر کے ہزاروں افراد اور بچوں کو شہید کرنے کیلئے اسرائیل کو جواز فراہم کرنے کے سوال پر انہوں نے جواباً کہا کیااس سے پہلے آئے روز فلسطینی شہید نہیں ہو رہے تھے؟ ہم سفارتی، قانونی اور عالمی سارے راستے دیکھ چکے ہیں، جس ماں کے بچے شہید ہوئے کیا ہم ان سے پوچھ سکتے ہیں جہاد کی کیا ضرورت ہے؟، اسرائیل کا تو تصور ہی یہ ہے سارا فلسطین اسکاہے،کیا سارے رستوں پر ناکامی کے بعد جہاد کے سواء کوئی راستہ باقی رہتا ہے؟۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan