امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے لاہور میں مال روڈ پر “لبیک یا اقصیٰ ریلی” سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس نے حملہ کر کے دشمن کو پیغام دیا کہ اسلام کے وارثین غزہ کے مسلمان ہی نہیں بلکہ چار ارب مسلمان بھی ہیں جو اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان حکمران فلسطین کا ساتھ دیں یا نہ دیں لیکن ہم لبیک یا اقصیٰ کا اعلان کرتے ہیں، مسجد اقصیٰ کیلئے اپنی جانوں کی قربانی دینے کیلئے حاضر ہیں، کچھ لوگ فلسطین کا مسئلہ عربوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ کی آزادی کا مشن جان سے زیادہ عزیز ہے، اعلان کرتا ہوں امریکی بیڑہ غزہ میں قتل عام کیلئے آ سکتا تو سن لو ہم بھی ماؤں بہنوں کی حفاظت کیلئے غزہ جا سکتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 80 لاکھ اسرائیلیوں نے ناجائز قبضہ کر کے ناجائز ریاست بنائی، 70 لاکھ مسلمانوں کو ملک بدر کیا ہے، لبنان اور اردن میں فلسطینیوں کے کیمپ ہیں اور وہ دربدر ہیں، چار عشروں سے بیت المقدس کی آزادی کا حلف اُٹھایا تو دنیا کے حکمرانوں نے ساتھ نہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فلسطینیوں کا ساتھ دیا تو امت مسلمہ کو عزت ملے گی البتہ اگر فلسطینیوں کا ساتھ دینے کے بجائے میر صادق بن کر اسرائیل کا ساتھ دیا تو ذلت مقدر بنے گی، یاد رکھیں صدام حسین کو اسی امریکی فوج نے عراق میں پھانسی دی تو وہ عید کا دن تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا عزت سے جینے نہیں دے گا، اگر مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا تو وہ گریٹر اسرائیل کے نقشے کے تحت شام، ترکی، سعودی عرب اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کر لیں گے، یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ مدینہ و خیبر ہمارا ہے لہٰذا اگر مقدس زمین کو بچانا تو جہاد و فلسطینیوں کا راستہ ہے۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ عالم اسلام جہاد کا اعلان کرکے فلسطینیوں کا ساتھ دے، اگر امریکا، اسرائیل کا ساتھ دے سکتا ہے تو ہم اپنے بھائیوں کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتے۔ انہوں نے اس تمام عمل میں عالمی اداروں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کہاں سوئی ہوئی ہے، جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں کیا کیا، اسرائیلیوں نے ایک صدی سے دوسروں کے گھروں پر حملہ کرکے مستقل قبضہ جمایا تو انسانی حقوق کی علمبردار کدھر گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں روس و نیٹو کی شکست کو دیکھا ہے تو فلسطین میں اسرائیل و امریکا کی شکست بھی دیکھیں گے، بچے بچے نے فلسطینیوں کے نقش قدم پر چل کر اسرائیلیوں کے سومنات کو پاش پاش کرنا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وزیراعظم سے کہوں گا کہ سات اکتوبر کے بعد انہوں نے پالیسی جاری کی کہ فلسطین میں یہودیوں اور فلسطینیوں کی ریاست قائم ہونی چاہیے لیکن یہ پالیسی قائداعظم و ریاست کی پالیسی نہیں ہے، مارچ 1940 سے اب تک یہی پالیسی ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، آپ نے جس پالیسی کا اعلان کیا وہ پالیسی پاکستان کی نہیں، آپ کو عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں، پالیسی تبدیل کرو کیونکہ کسی بھی قیمت پر حکمرانوں پر ملکی پالیسی کو تباہ نہیں کرنے دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنے دن گزر گئے لیکن اسلامی تعاون تنظیم کیبنٹ کا اجلاس کیوں نہ بلایا گیا، ہم نے فلسطینیوں کو تنہا نہیں چھوڑنا بلکہ ہم قربانی دے کر بیت المقدس و مسجد اقصیٰ کو صہیونیوں و یہودیوں سے چھین لیں گے۔