جنیوا(مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن )یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آبزرویٹری نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قابض فوج کے خونریز فضائی اور توپ خانے کے حملوں نے اسے جہنم کے گڑھے میں تبدیل کر دیا جہاں انتہائی پیچیدہ انسانی حالات میں موت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں اور زندگی کی بنیادی ضرورت پانی تک بند کردیا گیا ہے۔
یورو- میڈیٹیرینین آبزرویٹری نے اسرائیلی جارحیت کے آٹھویں دن ہر گھنٹے میں کم از کم 14 فلسطینیوں کی ہلاکت کی دستاویز کی، جس میں اب تک اس پٹی پر 6000 سے زیادہ بم گرائے جا چکے ہیں۔ یہ بم ایک ایٹم بم کے ایک چوتھائی کے برابر ہیں۔
جنگوں میں ایٹمی بم کا استعمال سب سے پہلے امریکا نے کیا اور 13ٹن کے ایٹمی بم والے امریکی طیارے نے 6 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر حملہ کیا جس میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
یورو-میڈیٹیرینین آبزرویٹری نے ہفتے کے روز ایک پریس بیان میں کہا کہ غزہ میں شہری کسی پناہ گاہ کے بغیر ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب بجلی، پانی، مواصلات اور انٹرنیٹ خدمات نہیں ہیں۔
یورو- میڈیٹیرینین آبزرویٹری کی دستاویزات کے مطابق کم از کم 2,370 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 721 بچے اور 390 خواتین شامل تھیں، جب کہ 9,250 دیگر زخمی ہیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں۔
آبزرویٹری نے بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں اپنے فضائی اور توپخانے کے حملے تیز کردیے ہیں۔ اس سے میں تمام رہائشی محلوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ کم از کم 82 خاندانوں کو اجتماعی طور پر شہید کیا گیا ہے۔
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج کے حملوں میں 2,650 رہائشی عمارتیں تباہ ہوئیں اور تقریباً 70,000 رہائشی یونٹس کو شدید اور جزوی طور پر نقصان پہنچا، جبکہ 65 سرکاری ہیڈکوارٹر تباہ ہوئے۔
قابض فوج کے حملوں کم از کم 71 سکولوں کو تباہ کر دیا، 145 صنعتی تنصیبات اور 61 میڈیا ہیڈکوارٹرز کو تباہ کر دیا، 18 مساجد کو شہید کیا گیا۔