اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے رہنما اور پارلیمان کمیٹی کے سیکرٹری مشیرالمصری نے فتح سے صہیونی دشمن کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے رام اللہ حکومت سے فلسطینی مصالحت پر حقیقی معنوں میں عمل کرنے اور صہیونی دشمنوں کے خلاف مزاحمت پر متفق ہونے کی اپیل بھی کی۔
المصری نے یہ باتیں غزہ کے مغربی علاقے منطقہ زیتون کی مسجد علی بن ابی طالب میں پیر کے روز حماس کی جانب سے منعقد کی گئی ایک سیاسی نشست کے دوران کیں۔
انہوں نے فتح کی جانب سے جاری مذاکرات کے طرز عمل کو سرتسلیم خم کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا طریقہ قرار دیا۔ دریں اثنا ان کا کہنا تھا طویل عرصہ تک قابض اسرائیل سے مذاکرات کے نتیجے میں فلسطینیوں کو صرف نئی یہودی آبادیوں کی تعمیر، اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے اضافے، القدس شہر میں شہریوں کی بے دخلی اور کھدائیوں میں اضافے اور خراب نامی صومعے کی تعمیر جیسی جارحیتوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔
حماس کے رہنما نے شفاف انتخابات کے ذریعے معاملہ فلسطینی قوم کی عدالت میں پیش کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ رام اللہ کی حکومت نے صدارتی انتخابات منعقد نہ کرکے انتخابات سے مکمل طور پر راہ فرار اختیار کر لی ہے حالانکہ صدارتی انتخابات پچھلے سال جنوری میں ہوجانا چاہیے تھے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ آنے والے دنوں میں فلسطینی عوام غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں ایک منصفانہ انتخابات منعقد ہوتا دیکھ سکیں گے۔
فلسطینی مصالحت اور داخلی انتشار کے خاتمے پر بات کرتے ہوئے مصری نے کہا ’’ فریق مخالف کی خواہش ہے کہ ہم ہر شرط کو من وعن قبول کر لیں، حماس ایسا ہر گز نہیں کر سکتی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ حماس اپنے موقف پر ڈٹی رہی گی انہوں نے علاقے میں تقسیم ختم کر کے متوقع جارحیت کا مل کر مقابلہ کرنے کے لیے رام اللہ کی حکومت سے غزہ میں آئینی حکومت کی طرف ہاتھ بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ مصری کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسطینی مصالحت کے لیے فتح حکومت کو اسرائیل کے ساتھ بے سود مذاکرات اور ہر طرح کے سیکیورٹی تعاون، جسے روزگار سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے، کو خیر باد کہنا ہو گا۔
حماس کے رہنما نے فتح سے مغربی کنارے میں حماس کے تمام زیر حراست کارکنوں کو فی الفور رہا کرنے اور اپنے لوگوں کے ساتھ مزاحمت ترک کر کے دشمن اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غاصب یہودی آباد کاروں کے دن رات مغربی کنارے میں بلا کسی رکاوٹ داخلے کو روکا جائے۔
ملاقات کے اختتام پر القدس کو یہودیانے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے المصری نے قومی سطح پر مظاہرے کرنے اور غاصب اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے تمام مہیا وسائل بروئے کار لانے کا مطالبہ کیا۔ غزہ میں حکومت کو درپیش مالی
بحران اور تاجروں اور ایندھن پر لگائے گئے ٹیکس پر کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ’’ یہ ٹیکس سابقہ حکومتوں کے ادوار سے چلے آ رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں بھی یہ ٹیکس لاگو ہیں۔ تاہم یہ صرف استطاعت رکھنے والے تاجروں پر عائد ہیں، اس ضمن میں انہوں نے فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ھینہ کی جانب سے سنہ 2009 ء میں تاجروں کو ٹیکس میں چھوٹے دینے کے عمل کی تعریف کی۔
سگرٹ نوشی پر عائد ٹیکس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی کو ختم کرنے کے لیے سگرٹ نوشوں پر دباؤ بڑھانا ضروری تھا، اسی ضمن میں سگرٹ نوشوں کے علاج کے لیے بہت سے فنڈز مختص کیے گئے اس کا یہ ہی مقدصد تھا کہ خدمات عامہ کے اخراجات کو اپنے شہریوں پر ہی خرچ کیا جائے۔