تہران میں گذشتہ روز منعقد ہونے والی یکجہتی فلسطین کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین سمیت کسی بھی ملک میں صہیونی جارحیت کا ڈٹ کرمقابلہ کیا جائے گا اور جارحیت کی ہر شکل کو ناکام بنایا جائے گا۔ تہران میں منعقدہ فلسطین کانفرنس کے شرکاء نے اس امرکی اہمیت پر زور دیا کہ فلسطین سمیت دیگر عرب ممالک میں اسرائیل کی جانب درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام کوششوں کو یکجا کیا جائے اور تمام ممالک اور تحریکیں اسرائیل کی کسی بھی قسم کی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے مرکوز کی جانی چاہئیں۔ کانفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین، شام، لبنان اور دیگر ممالک کے خلاف امریکا اور صہیونیوں کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، بلکہ صہیونیت کا اصل ہدف عالم اسلام اور عرب ممالک ہیں۔ ایسے میں تمام عرب ممالک اور مسلم امہ کو امریکی صہیونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو مجمتع کرنا ہو گا۔ کانفرنس کے اعلامیے میں فلسطین میں یہودی آباد کاری ، فلسطینی مقدسات پر حملے، یہودیوں کی مسجد اقصیٰ میں داخلے کی کوششیں اور قبلہ اول کی بے حرمتی، فلسطینیوں کی املاک پر قبضہ، بے گناہ شہریوں کی گرفتاری اور ٹارچر سیلوں میں تشدد، اسلامی آثار کو یہودیت میں تبدیل کرنے اور بالخصوص مسجد ابراھیمی اور مسجد بلال بن رباح کو یہودی ورثہ قرار دینے کی اسرائیلی وزیراعظم کے اعلان کی شدید مذمت کی گئی۔ بعد ازاں کانفرنس کی جانب سے جاری ایک بیان میں بھی فلسطین میں اسلامی اور مسیحی آثار قدیمہ اور مقدس مقامات کو یہودی ورثہ قرار دینے کو عالم اسلام کے خلاف ایک گہری سازش قرار دیتے ہوئے مسلم امہ سے فلسطین میں مقدسات اسلامی کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بیان میں غزہ میں اسرائیل کی جانب چار سال سے مسلط معاشی ناکہ بندی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے میں عرب ممالک اور مسلم دنیا مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ اس موقع پر فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری نام نہاد مذاکرات ختم کرتے ہوئے اس سے قائٓم کیے گئے ہر قسم کے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کریں۔ بیان میں کہا گیا کہ مسلم امہ تمام جارح قوتوں کے مقابلے کے لیے مزاحمت کی حکمت عملی کو اپنانا ہو گا۔ کانفرنس میں عرب ممالک، فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک کی تنظیموں نے شرکت کی۔