Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

فلسطین حالیہ جنگ بندی کے بعد

دو ماہ قبل ماہ رمضان المبار ک کے آخری ایام میں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل نے فلسطین کے مظلوموں پر جنگ مسلط کی تھی، اس جنگ کا مقصد تھا کہ شہر القدس کے علاقہ شیخ جراح کو فلسطینی آبادی سے خالی کروایا جائے اور یہاں صہیونیوں کی آباد کاری انجام دے کر علاقہ کو مکمل صہیونی تسلط میں لیا جائے ۔ اس گھناءونے کام کو انجام دینے کے لئے صہیونی غاصب ریاست کے حکا م اور سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والی صہیونیوں کی دہشت گرد تنظی میں اور گروہ فعال تھے ۔ حتی انہوں نے پہلے صہیونی عدالتوں کا سہارا لے کر یہ کام انجام دینے کی پوری کوشش کی لیکن فلسطینی عزم و استقامت کے سامنے صہیونیوں کے تمام ہتھکنڈے ناکام رہے ۔ یہاں تک کہ جب صہیونیوں نے بے جا طاقت کا استعمال کر کے فلسطینیوں کو اس علاقہ سے نکالنے کی کوشش کی تو فلسطینی عوام نے پا برہنہ مزاحمت کاری کا جو باب رقم کیا اسے آزادی فلسطین کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا ۔

غرض یہ کہ اس تما م معاملہ م یں دس دن تک مسلسل فلسطینی عوام اور فلسطین مزاحمت کے ساتھ غاصب صہیونی ریاست کی جنگ جاری رہی ۔ دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نے کس طرح فلسطین کے متعدد علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بھی استعمال کیا ۔ میڈیا دفاتر بھی اسرائیل کی دہشت گردی سے محفوظ نہ رہ پائے ۔ دوسری طرف فلسطینی عوام نے کم وسائل اور اسلحہ کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کیا ۔ غزہ سے حماس نے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی مدد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اگرچہ اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے کو جدا کر رکھا ہے لیکن فلسطینی سب ایک ہیں اور پورا فلسطین فلسطینیوں کا ہے ۔

دس یا گیارہ روزہ اس لڑئی کے بعد دنیا کے منظر نامہ پر خبر آئی کہ اسرائیل نے جنگ بندی کرنے کی درخواست کی ہے ۔ اس طرح یہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی کہ جس میں سیکڑوں فلسطینی شہید ہوئے اور ہزاروں ہی زخمی ہوئے ۔ انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوا ۔ دوسری طرف اسرائیل کو بھی فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے ہی اسرائیل ظاہری طور پر اس جنگ بندی کے لئے امریکہ سے درخواست کرتا رہا ۔

جنگ بندی کا سنتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید زندگی جیسے تھی ویسے ہی بحال ہو گئی ہے ۔ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے ۔ یہی حال فلسطین میں ہوا ہے ۔ جیسے ہی جنگ بندی کا اعلان ہوا دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے او ر ریلیوں میں بھی بتدریج کمی آنا شروع ہو گئی ۔ اسی طرح عالمی فورمز پر جہاں جہاں فلسطین کے حق اور فلسطینیوں کے حقوق کی آواز اٹھائی جا رہی تھی رفتہ رفتہ پہلے والی پوزیشن پر جانا شروع ہو چکی ہے ۔

عالمی برادری جو گذشتہ ستر سال سے فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز وجود کے تسلط پر خاموش تماشائی تھی جنگ کے ایام میں بالآخر مجبوری کے طور پر کچھ نہ کچھ اسرائیل کے خلاف بولنے پر مجبور تھی لیکن جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ عالمی ادارے اور عالمی انجمنیں اور انسانی حقوق کی تنظی میں ایک مرتبہ پھت کسی گہرے نشہ میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ حالانکہ اس جنگ کو گزرے ابھی دو ماہ بھی ٹھیک سے نہیں گزرے ہیں ۔

اسرائیل آج بھی فلسطینی عوام کے گھرو ں کو مسمار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ آج بھی شیخ جراح کے علاقہ میں اسرائیل دراندازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہاہے ۔ آج بھی اسرائیل کی جیلوں اور عقوبت خانوں می موجود بے گناہ فلسطینی قید و بند کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دوں کہ انہ قیدیوں نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور بھوک ہڑتال کئے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عالمی برادری او ر بڑے بڑے ادارے خواب خرگوش میں ہیں لہذا ان کی کی آزادی کا واحد راستہ صرف اور صرف بھوک ہڑتال میں ہے کہ یا تو وہ صہیونی زندانوں سے نجات پا کر آزاد ہو جائیں گے اور اپنے پیاروں کے پاس پہنچیں گے یا پھر شہید ہو کر شہداء کے پاس جا پہنچیں گے ۔ بہر حال دونوں صورت میں ہی آزادی ان کا مقدر بنے گی ۔

جنگ بندی کے بعد چونکہ دنیا فلسطین سے غافل ہو چکی ہے تاہم دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اسرائیل نے مسلسل کئی مرتبہ غزہ اور ا س کے ملحقہ علاقوں پر مسلسل بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ نہ صرف غزہ پر بلکہ اسرائیل نے گذشتہ چند ہفتوں میں شام اور لبنان پر بھی حملے کئے ہیں البتہ لبنان پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے جوابی کاروائی کی ہے اور اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں کو اپنے راکٹ حملوں سے نشانہ بنایا ہے جس پر فلسطین میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اس اقدام کی حمایت کی ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل چونکہ صہیونیوں کی ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے کہ جس کے قیام سے قبل اور آج تک ایک سو سال سے بھی زائد کی تاریخ میں ہ میں صرف اور صرف جارحیت اور ظلم اور دہشت گردی کے سوا کچھ اور نہیں ملتا ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کو توڑنا اور فلسطینیوں پر مسلسل اسی طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھنا نہ تو فلسطینیوں کے لئے کوئی نئی بات ہے بلکہ اس بات کو بیا ن کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا کے باضمیر افراد اور بالخصوص پاکستان کے شہر ی کہ جن کا لگاءو فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ ہے وہ با خبر رہیں اور فلسطین کے مسئلہ کو فراموش نہ ہو نے دیں ۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں دنیا کا سب سے بڑا شیطان امریکہ او ر اس کی ناجائز اولاد اسرائیل چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پس پشت چلا جائے اور دنیا اس مسئلہ کو فراموش کر دے تا کہ وہ آسانی سے پورے فلسطین پر صہیونی راج قائم کریں ۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم فلسطین کے مظلوموں کی آواز کو بلند کریں ، فلسطین کا پرچم بلند رکھیں تا کہ صہیونی سازشیں پیدا ہونے سے قبل ہی دم توڑ جائیں ۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم

سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan