ایک وقت میں عالم اسلام میں شاہ فیصل، کرنل قذافی، یاسر عرفات اور ذوالفقار علی بھٹو کو مسلمانوں کی بڑی قیادت سمجھا جاتا تھا اور انہیں ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔ پورے عالم اسلام میں ان کے چرچے تھے۔ ہر جگہ ان کی تصاویر آویزاں کی جاتی تھیں۔ مائیں نوزائیدہ بچوں کے نام ان شخصیات پر رکھنا فخر محسوس کرتی تھیں۔ شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کردیئے گئے ، یاسر عرفات کا انتقال ہوگیا اور کرنل قذافی کی شخصیت ماند پڑگئی۔ ایک طویل عرصے تک عالم اسلام کسی ولولہ انگیز قیادت کا منتظر رہا مگر حال ہی میں ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان کے اسرائیل کے خلاف دلیرانہ و جراتمندانہ موقف نے ان کی شخصیت کو ترکی کی سطح سے اٹھاکر عالمی سطح پر لاکھڑا کیا ہے اور مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ ایک مسلم ہیرو کے طور پر ابھرے ہیں۔
ترکی وہ واحد مسلم ملک تھا جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے مگر گزشتہ دنوں اسرائیل کی جانب سے آزادی فلوٹیلا پر حملے اور ترکی کے رضاکاروں سمیت 19 افراد کی شہادت سے ترکی کے تعلقات اسرائیل سے کشیدہ ہوگئے ہیں۔ ترکی نے اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے نہ صرف فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی بلکہ نہایت پرامن اور مہذب طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کیا، اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور اسرائیلی فوج کے ساتھ ترک افواج کی ہونے والی مشترکہ مشقیں منسوخ کردیں اور اسرائیل کے طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
طیب اردگان نے اسرائیل کے خلاف یہ اقدام پہلی بار نہیں کیا بلکہ اس سے قبل بھی سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے دوران ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان غصے کی حالت میں اس وقت احتجاجاً واک آئوٹ کرگئے جب اس اکنامک فورم کے ایک اجلاس میں اسرائیل کے صدر شمون پیرز نے اپنی 25 منٹ کی تقریر میں غزہ میں ہونے والے قتل عام کو جائز قرار دیااور انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہیں اور اگر ضرورت پڑی تو مستقبل میں بھی اس طرح کے اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ اسرائیلی صدر کی تقریر کے بعد ترک وزیراعظم نے ان کے الزامات کے جواب دینے کے لئے وقت مانگا تو منتظمین نے انکار کردیا جس پر ترکی کے وزیراعظم اجلاس سے احتجاجاً یہ کہتے ہوئے واک آئوٹ کرگئے کہ وہ اس اجلاس میں آئندہ کبھی شرکت نہیں کریں گے کیونکہ منتظمین کا رویہ جانبدارانہ تھا۔ان کے جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے نہ صرف ترک عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے ان کو ایک ہیرو کے طور پر سراہا۔
طیب اردگان کے حالیہ جرات مندانہ اقدامات پر عالم اسلام میں انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے اور ان کے اقدامات کی بھرپور حمایت و تائید کی جارہی ہے۔ متعدد ممالک میں ان کے حق میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں جن میں ان کے بڑے بڑے پورٹریٹ لوگوں نے اٹھا رکھے ہوتے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کے نام پر ان کے نام رکھے جارہے ہیں۔ غزہ میں حال ہی میں پیدا ہونے والے ایک بچے کا نام ’’طیب‘‘ رکھا گیا۔ مصر کے ایک آزاد اخبار ’’المصر الیوم‘‘ نے طیب اردگان کو ’’مسلمانوں کا خلیفہ‘‘ قرار دیا ہے۔ ترکی ایک وقت میں یورپی یونین کی رکنیت کا خواہشمند تھا تاکہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکے لیکن یورپ میں موجود مسلم مخالف لابی ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی اس لئے مخالف رہیں کیونکہ اتنے بڑے اسلامی ملک کے یورپی یونین کا رکن بننے سے یورپ میں اسلام کے مزید پھیلنے سے وہ خوفزدہ تھے۔ آج ترکی یورپی یونین میں نہیں عرب لیگ میں شمولیت کا خواہشمند ہے اور اس کے موجودہ کردار نے اس کی عرب لیگ میں شمولیت کی راہ ہموار کردی ہے۔ترکی کے موجودہ کردار نے عرب ممالک میں امریکہ کے حامی حکمرانوں کو پریشان کردیا ہے اور عرب عوام کا ان حکمرانوں پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدام اٹھائیں اور اسرائیل پر دبائو ڈالیں تاکہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ عرب عوام کا خیال ہے کہ ان کے حکمرانوں نے ملک کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے اور وہ خاموش تماشائی کا کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔
ترکی جیسے ماڈریٹ اور اعتدال پسند اسلامی ملک میں فلسطینیوں کی اس قدر بڑے پیمانے پر حمایت کا ابھرنا مغرب کے لئے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اسرائیل کے اقدام کے باعث ترکی کے اسرائیل مخالف رویئے نے امریکہ کے لئے بہت سی پریشانیاں کھڑی کردی ہیں اوراسرائیل کی اندھا دھند حمایت نے ترکی کو امریکہ سے دور کردیا ہے جس کا ایک وقت میں وہ ایک اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ ترکی کا آئین سیکولر ہے اور ان کی فوج اس آئین کی محافظ ہے لیکن ملک کے عوام میں اسلام کے متعلق بیداری تیزی سے پیدا ہورہی ہے اور لوگ مغربی تہذیب ترک کرکے اسلامی اقدار کو اپنا رہے ہیں۔
عالم اسلام ایک جانب سخت گیر جبکہ دوسری جانب امریکی و مغربی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرنے والی قیادت کے درمیان بٹا رہا ہے۔ آج عالم اسلام کو ایک اعتدال پسند، اسلامی اقدار پر یقین رکھنے والی بالغ نظر قیادت کی ضرورت ہے اور طیب اردگان میں وہ صلاحیت موجود ہے۔ ترکی نیٹو کی واحد مسلم ریاست کی حیثیت سے مغرب اور اسلام میں پل کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ ایک اعتدال پسند قیادت ہونے کی وجہ سے ترکی مغرب کو عالم اسلام کے مسائل بہتر طریقے سے بتاسکتا ہے جبکہ دوسری جانب اپنے جراتمندانہ اور پرامن موقف کی وجہ سے اسے عالم اسلام کی بڑی اکثریت کا اعتماد بھی حاصل ہو گا۔
پاکستان اسلام کا قلعہ اور واحد اسلامی ایٹمی ریاست ہے، ایک طویل عرصے تک دنیا بھر کے مسلمان پاکستان کی طرف قیادت کے لئے دیکھتے رہے لیکن ہر آنے والا حکمران امریکی خوشنودی کے حصول کو ہی اپنے لئے بڑی کامیابی تصور کرتا رہا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو کوئی قیادت میسر نہ آئی۔آج طیب اردگان کی اسرائیل اور مغرب کے خلاف جرات مندانہ اقدامات کے باعث دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں آج ترکی کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اورطیب اردگان کی قیادت میں ترکی خلافت عثمانیہ کے بعد ایک مرتبہ پھر عالم اسلام کی قیادت کرسکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ