Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

“خطے میں آئندہ کوئی بھی جنگ فلسطینی مفادات کے تناظر میں ہو گی”

palestine_foundation_pakistan_victory5

معروف فلسطینی دانشوراور فلسطینی پناہ گزینوں کے امورکے ماہر حسام احمد نے مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ پناہ گزینوں کے معاملے کوہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور انہیں اپنے وطن میں حق واپسی اورآباد کاری سے محروم کرنے کے لیے گہری سازش تیارکی جا رہی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے یہ سازش امریکی اور صہیونی ڈکٹیشن کے تحت تیار ہو رہی ہے جس میں فتح کی مغربی کنارے میں قائم حکومت کے وزیراعظم سلام فیاض پیش پیش ہیں۔ سلام فیاض جہاں ایک طرف امریکی ہدایت پر فلسطینی پناہ گزینوں کی حق واپسی کی فائل بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں وہیں وہ اسرائیل کی مرضی کے مطابق فلسطین کے کچھ علاقوں میں 2011ء کے آخر فلسطینی ریاست کے قیام کی منصوبہ بندی پربھی عمل پیرا ہیں۔
حسام احمد نے کہا کہ”مستقبل میں خطے میں ہونے والی کوئی بھی جنگ فلسطینی مفادات کے محور پر ہو گی۔ فلسطینی اپنے حقوق کے حصول ،حق واپسی کے لیے مستحکم ارادے اور ہرطرح کی قربانیاں دینے کی استعداد کارکی شرط مزاحمتی پروگرام کی پشتیبانی کر کے پہلے ہی پوری کر چکے ہیں۔ اور یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سے فلسطینی عوام آزادی کی نعمت سے ہمکنار اور حق واپسی کے حصول میں کامیاب ہوسکتے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ایک فلسطینی شہری بھی فلسطین کے سوا کسی دوسرے ملک کو اپنا مستقل وطن قرار دینے پر تیارنہیں ہو گا، اردن فلسطینیوں کا برادر اور دوست ملک ہے، لیکن وہ بہرحال فلسطینیوں کا متبادل وطن نہیں ہو سکتا۔ اردن کو فلسطینیوں کا وطن قراردینے کا موقف اور دعویٰ اسرائیل کا قدیم اور جدید موقف ہے جس کا آغازاسرائیل کی”لیکوڈ” پارٹی نے کیا تھا۔
ذیل میں ان کےساتھ ہونے والی گفتگوکا احوال پیش ہے۔
فتح کے غیرآئینی وزیراعظم سلام فیاض کی جانب سے اسرائیلی اخبار”ہارٹز” کو فلسطینیوں کے حق واپسی کی نفی سے متعلق دیا گیا بیان کس حدتک پناہ گزینوں کے مستقبل اور ان کےواپسی کے حق کے حوالے سے خطرناک قراردیا جا سکتا ہے؟
جہاں تک سلام فیاض کے فلسطینی پناہ گزینوں کے مستقبل اور ان کے حق واپسی کے بارے میں موقف کا تعلق ہے، میں کہوں گا کہ سلام فیاض کا وہی موقف ہے جو موجود ہ “پی ایل او ” کے سربراہ محمود عباس کا فلسطینی پناہ گزینوں کے بارے میں ہے۔
سلام فیاض کا یہ موقف اس اعتبارسے بھی خطرناک ہے کہ انہوں نے اس کا اظہار ایک ایسےوقت میں کیا ہے جبکہ اسرائیل اور امریکا نےعرب ممالک کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کو معدنی تیل کی دولت والے ممالک میں آباد کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس تجویزکا مقصد فلسطینی خاندانوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں منتشرکرنا ہے۔
خطرے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ موقف فلسطینی وزیراعظم سلام فیاض کی طرف سے بطور وزیراعظم کی حیثیت سےسامنے آیا ہے، جو تنظیم آزادی فلسطین کے موقف کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ سلام فیاض کا یہ موقف فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کےدرمیان طے پانے والے “جنیوا معاہدے “کی تکمیل کی طرف بھی قدم ہے، کیونکہ اس معاہدے میں بھی فریقین نے فلسطینیوں کے حق واپسی کے بجائے انہیں کسی دوسرے عرب ملک میں آباد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ فنڈز کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیا جس میں اسرائیل بھی فلسطینیوں کی دوسرے ممالک میں آباد کاری پرمالی معاونت کا پابند ہے۔ اسرائیل پریہ پابندی اس لیے لگائی گئی تاکہ اس امرکا تعین کیا جا سکے کہ اسرائیل کس طرح فلسطینی پناہ گزینوں کی دوسرے ملک میں آباد کاری کے حوالے سے اپنی سیاسی اور آئینی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔
ان ہی خطرات میں خطرے کا ایک پہلو سلام فیاض کی جانب سے صہیونی ریاست کی منشا کے تحت 2011ء کے آخر تک فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز بھی ہے۔ یہ تجویز”ایک دوسری مصیبت” ہے جس میں عرب ممالک اور (مخصوص) فلسطینی گروہ اسرائیل کے سامنے امن اقدامات پیش کرنے میں مقابلے کی کیفیت میں ہوں گے، حالانکہ عرب ممالک کے اسرائیل کو پیش کردہ امن اقدامات اورتجاویز کی زمینی سطح پرنفاذ کا بھی کوئی امکان موجود نہیں۔
یہ بھی نہایت افسوسناک امرہے کہ سلام فیاض کی طرف سے فلسطینیوں کے حق واپسی کی نفی اور اسرائیل کی مرضی کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز کے ساتھ ہی قابض اسرائیل نے مغربی کنارے سے فلسطینی شہریوں کی نقل مکانی کے ایک نئے قانون پرعمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ چونکہ مغربی کنارے میں سلام فیاض اور اسرائیلی فوج کی مشترکہ حکومت قائم ہے اور سلام فیاض” شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری” کا فریضہ انجام دینے کے کوشش میں ہیں، تو ایسے میں اسرائیل نے بھی سلام فیاض اور ان کے گروہ کی کمزور رگ تلاش کر لی ہے۔
مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی بےدخلی کا فیصلہ سلام فیاض کے لیےہے کہ وہ جتنا موقف میں نرمی دکھائیں گے اسرائیل فلسطینیوں کے لیے ان کی سرزمین اتنا ہی تنگ کر دے گا۔ اسرائیل نے پیغام دے دیا ہےکہ” تم جس نکتے پر پہنچے ہو ہم اس سے مزید آگے بڑھنا چاہتےہیں(یعنی تم فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی سے دستبردار ہونے کے قائل ہوئے تو ہم مغربی کنارے سے بھی فلسطینیوں کو نکالنے پر آ گئے)۔
ایک تاثریہ بھی ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنےوطن میں واپسی عملا ناممکن ہے۔ آپ کیا کہیں گے؟
یہ درست ہے کہ ایک مخصوص گروہ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کو ناممکن العمل اور زمینی حقائق کے خلاف سمجھتا ہے، تاہم یہ وہ گروہ ہے جو”امریکا اور اسرائیل کی ڈکٹیشن” کے تحت اسرائیل سے مذاکراتی عمل میں شریک ہے۔ یہ مخصوص اورمحدود گروہ ہے جبکہ فلسطینیوں کی ایک بڑی اکثریت اور نمائندہ قیادت اس خیال اور نظریے کو تسلیم نہیں کرتی۔
دوسری طرف فلسطینیوں کے حق واپسی کے لیے کوششیں کرنے اور اسے ایک حقیقت کے طور پر دیکھنے والوں کے دعوے کی بنیاد حق واپسی کا وہ عالمی قانون ہے جسے عالمی سطح پرانسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں مستقبل میں ہونے والی کوئی بھی جنگ اسی تناظر اور فلسطینی مفادات کے محورمیں ہو گی۔ اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے فلسطینی عوام نے مستحکم ارادے اورہر طرح کی قربانیوں کے لیے تیاری کی شرط مزاحمت کی پشتیبانی کرکے پہلے ہی پوری کر دی ہے۔
فلسطینیوں کے حق واپسی ، آزادی اور دیگرحقوق کے حصول کے لیے مسلح مزاحمت کے پروگرام نے موثر نتائج مرتب کیے ہیں، جن کے درج ذیل اثرات مرتب ہوئے۔
1۔ مزاحمتی پروگرام اب عام شہریوں سے آگے بڑھ کرفلسطینی مجلس قانون سازمیں جا چکا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ریاست کے بنیادی پروگرامات میں ایک اہم پروگرام بنیادی حقوق کے حصول کے لیے مزاحمت کے لیے قانون سازی ہے۔ سال 2006ء سے قبل فلسطینی مجلس قانون ساز”اوسلو” گروہ کے زیراثر تھی اور “مزاحمت” ریاستی ادارے کا حصہ نہیں تھی، تاہم دو ہزار چھ کےپارلیمانی انتخابات میں اسے اب ایک باقاعدہ ریاستی پروگرام اور منشور کی حیثیت سےتسلیم کیا گیا ہے۔ اب فلسطینی مجلس قانون سازمزاحمت کی حمایت اور اسے مزید مضبوط بنانے کے لیے قانون سازکر رہی ہے۔
2۔ مزاحمت کا دوسرا اہم اثر اور نتیجہ غزہ میں ہمارے سامنے ہے۔ فلسطینی تحریک مزاحمت نے قابض اسرائیل کو غزہ سے نکال باہرکرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ غزہ سے یہودی بستیوں کاانخلا کا نظریہ بھی فلسطینی تحریک مزاحمت ہی کی پیداوار ہے اور مزاحمت ہی ایک ایسا پروگرام ہے جس نے صہیونیوں میں یہ تاثرعام کیا ہے کہ فلسطین ان کے لیےپر”جائے پناہ “نہیں۔ یہی وہ شواہد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کا حق واپسی بھی ایک سراب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
آپ کے خیال میں فلسطین سے نکالے گئے شہریوں کو چاہے وہ فلسطین ہی کے علاقوں میں کیمپوں میں پناہ گزین ہوں یا بیرون ملک آباد ہوں انہیں کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے؟
فلسطینی شہریوں کو 1948ء اوراس کے بعد کے ادوار میں ان کے وطن، املاک اور جائیدادوں سے محروم کر دیے جانے کے بعد ان کی مشکلات میں روز مرہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مشکلات کا اندازہ درج ذیل نکات سے لگایا جا سکتا ہے۔
1۔ یہ بات نہایت دکھ کے ساتھ کہنی پڑتی ہےکہ صہیونیوں نے 1948ء اوراس کے بعد کے ادوارمیں فلسطینیوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ تتربتر کیا۔ ایک ہی خاندان کےافراد کو دنیا کے کئی کئی ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔
مثال کے طورایک شخص کے اگر چار بیٹے ہیں تو چاروں کو چار الگ الگ ممالک میں بے دخل اور ان کے والد کو الگ کسی پانچویں ملک میں ھجرت پر مجبورکیا گیا۔ اس سے فلسطینی پناہ گزینوں کے دکھوں کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہا۔ یہ وہ تکلیف اور دکھ ہے جو فلسطینی پناہ گزین سب سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں۔
2۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں ایک اہم یہ کہ وہ 62 سال سے اپنے وطن میں واپس آنے کے لیے بے چین اوربے قرار ہیں، نصف صدی سے زائد عرصہ وہ جس انتظار اور وطن سے دوری کے کرب کی جس کییفیت سے وہ گذر رہے ہیں، اس کا بھی وہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہیں بے دخل کیے جانے کے بعد اب انکی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے اور وہ لوگ اب بھی ھجرت کے دوران صہیونی مظالم اور اس دور میں کی گئی دہشت گردی کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں۔
3۔ فلسطین سے نکال دیے جانے کے بعد پناہ گزیں جہاں اور جس ملک میں آج آباد ہیں، وہ آزاد شہریوں کی نہیں بلکہ قیدیوں کی حیثیت سے زندگی بسرکر رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کو مخصوص کیمپوں سے باہرنکلنے، ملک کے دیگرعلاقوں میں سفرکرنے یا کیمپ سے باہر کسی علاقے میں رہائش رکھنے پر پابندی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ فلسطینی پناہ گزینوں کوان کے اصلی وطن فلسطین کے بجائے اردن میں مستقل اقامت فراہم کرنے کی تجویززیرغورہے۔ ایسے حالات میں آپ کے خیال میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کا کیاموقف ہے؟
کوئی ایک بھی شہری فلسطین کے علاوہ کسی دوسرے ملک کو اپنے وطن کے طور پر ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ جہاں تک اردن کامعاملہ ہے، اردن ہمارا برادر اور ہمدرد ملک ہے، لیکن اسے کسی حالت میں بھی “فلسطینیوں کا متبادل وطن” نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اردن کو فلسطینیوں کا وطن قرار دینے کا دعویٰ اسرائیل کا قدیم اور جدید دعویٰ ہے،اور لیکوڈ پارٹی نے اس دعوے کی مہم کا آغا کیا تھا۔ رہا سوال اردنی حکومت اور اردنی عوام کا تو اس سلسلے میں اردن اور فلسطینی عوام کے موقف میں کوئی فرق نہیں۔ نہ تواردنی حکومت فلسطینیوں کو مستقل وطن فراہم کرنے کے لیے تیار ہے اورنہ اردنی عوام اس کی اجازت دیں گے۔
عراق میں پناہ گزین فلسطینیوں کو یورپی ممالک بے دخل کیا جا رہا ہے،ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں، معاملات کہاں پہنچے ہیں اور اس میں آپ کیا کہیں گے؟
عراق میں پناہ گزین فلسطینی پناہ گزینوں کو یورپی ممالک میں منتقل کرنے کا سلسلہ انہیں منتشرکرنے کی سازش کا حصہ ہے جو 1948ء سے اب تک تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ عراق سے فلسطینیوں کے انخلا اور ان کی یورپی ممالک میں منتقلی جہاں اسرائیل اور امریکا کا نظریہ ہے وہیں اس میں عرب ملکوں کی حکمران قیادت کا بھی ہاتھ ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ عراق یا کسی بھی دوسرے عرب ملک میں جہاں فلسطینی پناہ گزینوں کی اکثریت موجود ہے کی یورپی ممالک میں منتقلی انہیں مستقل وطن فراہم کرنے کے نقطہ نظرسےنہیں بعض عرب ممالک کے حکمران فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں پراقتصادی بوجھ سمجھتے ہیں اور امریکا اور اسرائیل کی بلیک میلنگ کا شکار ہو فلسطینوں کو مزید دربدر کرنے پرتلے ہوئے ہیں، فلسطینیوں کی نقل مکانی چاہے امریکا، یورپ یا ایشیا کے کسے بھی ملک کی طرف ہویہ صہیونی دشمن کے فلسطینیوں کے حق واپسی کی فائل کو بند کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے امداد کی کمی اور اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں سے متعلق ریلیف ایجنسی اونروا کےکردار کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
“اونروا” کی حیثیت فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے عالمی برادری کے ایک ذمہ دارنمائندہ ادارے کی ہے۔ اس ادارے کے ذریعے دنیا کے کسی بھی ملک کی طرف سے پناہ گزینوں کی امداد کی فراہمی فلسطینیوں پر وئی احسان نہیں، اونروا کا قیام جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 کےپناہ گزینوں کی واپسی تک ان کی بہبود کے لیے قائم ادارے کی صورت میں آیا ہے اور اس ادارے کے ذریعے فلسطینی پناہ گزینوں کی ہرممکن مدد اور ان کی وطن میں واپسی کے لیے تعاون عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
تاہم افسوسناک امریہ ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ اور فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل سے مذاکراتی عمل کے باعث اب “اونروا” بھی مذاکراتی گروہ کے زیراثر آ گیا ہے اور اس کی امدادی سرگرمیاں بھی سیاسی اور مذاکراتی عمل سےمشروط ہوتی جاتی رہی ہیں۔
دوسرے معنوں میں “اونروا” کا انتظام بھی اقوام متحدہ سے نکل کراسرائیل کے ہاتھ میں جا چکا ہے، یہی وجہ ہے یہ جس مقصد کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا ان کی طرف پیش رفت میں ناکام رہا ہے۔ امدادی سرگرمیاں بھی اسرائیل کے ہدایت کا مرھون احسان ہوتی جا رہی ہیں، جس سے پناہ گزینوں کی مشکلات میں خاطرخواہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اونروا کے امدادی پروگرام کے تحت پناہ گزینوں کی مالی امداد میں کئی ممالک نے یہ کہہ کر کٹوتی کی کہ انہیں مالیاتی بحران کا سامنا ہے، حالانکہ انہی ممالک نے عراق اور افغانستان کی جنگوں میں “اونروا” کو فراہم کردہ امداد سے کہیں زیادہ بجٹ فراہم کیا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan