Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

القدس اور گولان سے انخلاء عوامی ریفرنڈم کے بغیر ممنوع، نیا صہیونی قانون

palestine_foundation_pakistan_israeli-parliament-knesset3

اسرائیلی ’’کنیسٹ‘‘ نے اکثریتی ووٹوں سے ایک نیا بل منظور کیا ہے جس کے مطابق گولان اور القدس کے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کا انخلاء اس ضمن میں عوامی ریفرنڈم کے بغیر نہیں کیا جا سکے گا۔ پیر کے روز اسرائیلی پارلیمان میں نئے ’’ریفرنڈم بل‘‘ کے لیے کی گئی رائے شماری میں بل کے حق میں 63 جبکہ اس کی مخالفت میں 32 ووٹ پڑے۔ کنیسٹ میں حزب اختلاف کی ’’کادیما‘‘ پارٹی نے بل کی مخالفت کی جبکہ حزب العمل پارٹی نے اس موقع پر بل کی تائید یا مخالفت میں ووٹ دینے سے گریز کیا۔ واضح رہے کہ لیکوڈ پارٹی کے رکن پارلیمان یاریو لیوین کی جانب سے پیش کردہ اس بل کے مطابق گولان اور القدس کے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلاء کے کسی بھی فیصلے کے لیے پہلے پارلیمان کے ساٹھ اراکین کی تائید ضروری ہے جس کے بعد عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اس کی تائید لینا بھی ضروری ہو گا۔ تاہم اگر پارلیمان کی دو تہائی اکثریت، جو 80 ارکان بنتی ہے، اگر ان علاقوں سے اسرائیلی انخلاء کی منظوری دے دیتی ہے تو عوامی ریفرنڈم کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نیا بل پیش کرنے والے لیوین کا کہنا تھا کہ القدس اور گولان کے علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ان مقبوضہ علاقوں کی قسمت کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں دینا ہی سب سے بہتر طریقہ ہو گا۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم نے صہیونی قوانین میں اس نئے قانونی کے اضافے کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ’’عوامی ریفرنڈم کے ذریغے کسی بھی غیر ذمہ دارانہ سیاسی اتفاق رائے کو روکا جا سکے گا۔ اس قانون کی مدد سے اسرائیلی کے قومی مفادات کی خاطر کسی اتفاق رائے میں عوامی مدد بھی حاصل ہو گی۔ بل کی شرائط کے تحت اسرائیل نے1967ء کی مشرق وسطیٰ جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا اور انہیں بعد میں ضم کر لیا تھا،اب وہاں سے انخلاء کے لیے اس قانون کی منظوری کے بعدنوے روزکے اندر قومی ریفرینڈم کا انعقاد ہوگا۔اسرائیل کے زیرقبضہ عرب علاقوں سے انخلاء کے مخالفین گذشتہ کئی سال سے ایساکرنےکےلیےقومی ریفرینڈم کےانعقادکا مطالبہ کررہے ہیںجس سے انخلاء کاعمل اور زیادہ پیچیدہ ہو جائےگا۔ واضح رہےکہ اسرائیل نےمشرقی القدس کو1967ء کی جنگ کے فوری بعد ضم کرلیاتھاجبکہ گولان کی پہاڑیوں کو1981ء میں ضم کیاتھا۔اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی حصے کو فلسطینیوں کےساتھ کسی امن معاہدے کی صورت ہی میں خالی کرے گا۔ تاہم اس وقت فریقین کے درمیان اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے اور القدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کے مسئلہ پربراہ راست مذاکرات منقطع ہیں۔ اسی طرح اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کوبھی شام کے ساتھ کے کسی امن معاہدے کے بعد ہی خالی کرے گالیکن اس وقت دونوں ممالک فنی طور پر حالت جنگ میں ہیں اور ان کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعدسے قریباًپانچ لاکھ یہودیوں کومغربی کنارے اورمشرقی بیت المقدس میں لابسایاہے۔اقوام متحدہ یہودی آبادکاروں کی بستیوں کوغیرقانونی قراردے چکی ہے اوربین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہودی بستیاں مقبوضہ علاقوں میں کسی کارروائی سے متعلق چوتھے جنیواکنونشن کی خلاف ورزی ہیں۔امریکی صدربراک اوباما بھی یہودی بستیوں کوغیرقانونی قراردے چکےہیں۔ اسرائیل کاعذرگناہ بدترازگناہ کے مصداق یہ کہناہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اوربیت المقدس پرجنیواکنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ یہ علاقہ 1967ء کی جنگ سے قبل کسی کی ملکیت نہیں تھااس لیے اسے مقبوضہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ فلسطینی مشرقی القدس کواپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بناناچاہتے ہیںجبکہ اسرائیل اس کواپنادائمی اورغیرمنقسم دارالحکومت قراردیتاہے۔اس لیے یہ ناممکن نظرآتاہےکہ اسرائیلی عوام ریفرینڈم میں اس علاقے کوخالی کرنے کی منظوری دے دیں گے۔دوسری جانب فلسطینی بھی اسرائیل کے ساتھ کسی امن معاہدے کی منظوری کے لیے ریفرینڈم کا انعقادکرنا چاہتےہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan