Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

اسرائیل نے مزید ہزاروں فلسطینیوں کو القدس کی سکونت سے محروم کر دیا

iof-palestine-citizen اسرائیل کے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست نے گذشتہ ایک سال کے دوران مزید ہزاروں فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس کی سکونت سے محروم کر دیا ہے. اسرائیل کے ہاموکڈ مرکز برائے دفاع افراد کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈالیا کرسٹین نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ”مقبوضہ بیت المقدس میں قدیمی آباد فلسطینیوں کو شہر میں رہنے کے سکونتی حق سے محروم کرنے کا تناسب خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے”. ہاموکڈ نے آزادی اطلاعات کے ایکٹ کے تحت اسرائیلی وزارت داخلہ سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا ہے کہ سال 2008ء کے دوران مقبوضہ بیت المقدس سے چار ہزار پانچ سو ستتر فلسطینیوں کو سکونت کے حق سے محروم کیا گیا ہے اور یہ گذشتہ چالیس سال کے دوران القدس سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کی کل تعداد کے نصف سے زیادہ ہے. اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی ممالک مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں پر اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں.قابض اسرائیلی حکام ان فلسطینیوں کو ان تمام گھروں سے نکال باہر کر رہے ہیں جن کی ملکیت کے وہ کاغذی ثبوت مہیا نہیں کرسکتے حالانکہ ان مکانوں میں صدیوں سے ان کے آباء واجداد رہتے چلے آرہے تھے اور ان کے بعد فلسطینیوں کی موجودہ نسل ان مکانوں کی مالک بن گئی تھی. مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی پرمٹوں کے بغیر تعمیر کئے گئے فلسطینیوں کے مکانوں کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے جبکہ 1967ء کی جنگ میں قبضہ میں لئے گئے اس شہر کے کئی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کے لئے مزید بستیاں تعمیر کی جا رہی ہیں. رپورٹ کے مطابق اس مقدس شہر کی آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے. واضح رہے کہ فلسطینیوں کو نئے مکانوں کی تعمیر کے لئے اسرائیلی حکام کم ہی اجازت نامے جاری کرتے ہیں.اس طرح حیلے بہانوں سے فلسطینیوں کی املاک ہتھیائی جا رہی ہیں. فلسطینیوں کا موقف فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد مقبوضہ بیت المقدس سے زیادہ سے زیادہ فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنا ہے تاکہ وہ اسے اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانے کا دعویٰ نہ کر سکیں. ڈالیا کرسٹین نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ”اسرائیلی وزارت داخلہ کی 2008ء میں فلسطینیوں کو ان کے آبائی مکانوں سے نکال باہر کرنے کی مہم اسرائیل کی اس عمومی پالیسی کا حصہ تھی جس کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی آبادی کو کم کرنا اور یہودیوں کی تعداد کو بڑھانا ہے کیونکہ اس شہر کے مستقبل کا فیصلہ ابھی مذاکرات کے ذریعے طے ہونا ہے”. ہاموکڈ کی رپورٹ کے ساتھ جاری بیان میں ڈالیا کا کہنا ہے کہ ”فلسطینی اس شہر کے قدیمی اور آبائی باشندے ہیں، وہ اس شہر کے ایسے رہائشی نہیں جو حال ہی میں کسی اور علاقے سے نقل مکانی کرکے یہاں آبسے ہوں”. اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اوربعد میں اس کوصہیونی ریاست میں ضم کرلیا تھا.اب وہ اس شہر کو اپنا دارالحکومت قراردیتا ہے لیکن اقوام متحدہ اور امریکا سمیت عالمی برادری نے کبھی اسرائیل کے اس دعوے کو قبول نہیں کیا. اس وقت مشرقی بیت المقدس اور اس کے نواحی علاقوں میں ڈھائی لاکھ فلسطینی رہ رہے ہیں جبکہ دولاکھ اسرائیلیوں کو اس شہر میں لابسایا گیا ہے.اسرائیل کے انتہا پسند وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کسی امن سمجھوتے کے تحت اس شہر کو تقسیم کرنے یا اسے دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت بنانے کے مطالبات کو مسترد کرچکی ہے. فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد مقبوضہ بیت المقدس سے زیادہ سے زیادہ فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنا ہے تاکہ وہ اسے اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانے کا دعویٰ نہ کر سکیں. ڈالیا کرسٹین نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ”اسرائیلی وزارت داخلہ کی 2008ء میں فلسطینیوں کو ان کے آبائی مکانوں سے نکال باہر کرنے کی مہم اسرائیل کی اس عمومی پالیسی کا حصہ تھی جس کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی آبادی کو کم کرنا اور یہودیوں کی تعداد کو بڑھانا ہے کیونکہ اس شہر کے مستقبل کا فیصلہ ابھی مذاکرات کے ذریعے طے ہونا ہے”. ہاموکڈ کی رپورٹ کے ساتھ جاری بیان میں ڈالیا کا کہنا ہے کہ ”فلسطینی اس شہر کے قدیمی اور آبائی باشندے ہیں، وہ اس شہر کے ایسے رہائشی نہیں جو حال ہی میں کسی اور علاقے سے نقل مکانی کرکے یہاں آبسے ہوں”. اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اوربعد میں اس کوصہیونی ریاست میں ضم کرلیا تھا.اب وہ اس شہر کو اپنا دارالحکومت قراردیتا ہے لیکن اقوام متحدہ اور امریکا سمیت عالمی برادری نے کبھی اسرائیل کے اس دعوے کو قبول نہیں کیا. اس وقت مشرقی بیت المقدس اور اس کے نواحی علاقوں میں ڈھائی لاکھ فلسطینی رہ رہے ہیں جبکہ دولاکھ اسرائیلیوں کو اس شہر میں لابسایا گیا ہے.اسرائیل کے انتہا پسند وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کسی امن سمجھوتے کے تحت اس شہر کو تقسیم کرنے یا اسے دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت بنانے کے مطالبات کو مسترد کرچکی ہے. آبادی کے تناسب میں تبدیلی اقوام متحدہ اور مغربی قوتوں کا کہنا ہے کہ اس شہر کی حیثیت کا تعین اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے کیا جانا چاہئے لیکن فریقین کے درمیان گذشتہ ایک سال سے مذاکرات منقطع ہیں اور ان کے جلد بحالی کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے. اسرائیلی اخبارہارٹزنے اپنی بدھ کی اشاعت میں یورپی یونین کی ایک داخلی دستاویز کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیل دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودی انتہا پسندوں کی مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے اپنے”اسٹریٹیجک ویژن” کے نفاذ کی غرض سے مدد کررہا ہے. اخبار نے یورپی یونین کی رپورٹ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ اسرائیل کے زیرانتظام شہر کی بلدیہ فلسطینیوں کونئے مکانوں کی تعمیر کے لئے درکار پرمٹوں سے محروم کررہی ہے اور انہیں حفظان صحت،نکاسی آب اور تعلیم کی کم تر سہولتیں مہیا کی جارہی ہیں. یورپی یونین نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے پینتیس فی صد شہری عرب ہیں لیکن ان کے علاقوں کے لئے شہر کا دس فی صد سے بھی کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے. ہاموکڈ تنظیم کا اپنی رپورٹ میں کا کہنا ہے کہ اسے اسرائیلی وزرات داخلہ نے 1967ء سے 2008ء تک مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کے اعداد وشمار فراہم کئے ہیں اور صرف سال 2002ء کے اعدادوشمار نہیں دئیے گئے کیونکہ اس سال اور سال رواں 2009ءکے اعداد وشمار دستیاب نہیں تھے. رپورٹ کے مطابق گذشتہ چالیس کے دوران کل آٹھ ہزار دو سو انہتر فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس میں سکونت کے حق سے محروم کیا گیا ہے.سال 2006ء کے دوران ایک ہزار تین سو تریسٹھ فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخل کیا گیا تھا. مشرقی بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں کو شہر کے مستقل رہائشیوں کا درجہ حاصل ہے لیکن اسرائیلی قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اگر وہ مسلسل سات سال سے زیادہ عرصہ اسرائیل سے باہر گزاریں گے یا غیرملکی شہریت حاصل کرلیں گے تو انہیں اس حق سے محروم کردیا جائے گا. ہاموکڈ نے اسرائیلی وزارت داخلہ کے بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پرسال 2008ء کے دوران سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے دور میں مارچ اور اپریل کے مہینوں میں زیادہ تر فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس کی شہریت اور سکونت سے محروم کیا گیا تھا.جن فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخل کیا گیا تھا ان میں زیادہ تر بیرون ملک رہ رہے تھے اور صرف اڑتیس کیس ایسے تھے جن میں فلسطینی مقبوضہ بیت المقدس سے نقل مکانی کرکے اسرائیل کے مقبوضہ دوسرے عرب علاقوں میں جا آباد ہوئے تھے. اقوام متحدہ اور مغربی قوتوں کا کہنا ہے کہ اس شہر کی حیثیت کا تعین اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے کیا جانا چاہئے لیکن فریقین کے درمیان گذشتہ ایک سال سے مذاکرات منقطع ہیں اور ان کے جلد بحالی کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے. اسرائیلی اخبارہارٹزنے اپنی بدھ کی اشاعت میں یورپی یونین کی ایک داخلی دستاویز کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیل دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودی انتہا پسندوں کی مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے اپنے”اسٹریٹیجک ویژن” کے نفاذ کی غرض سے مدد کررہا ہے. اخبار نے یورپی یونین کی رپورٹ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ اسرائیل کے زیرانتظام شہر کی بلدیہ فلسطینیوں کونئے مکانوں کی تعمیر کے لئے درکار پرمٹوں سے محروم کررہی ہے اور انہیں حفظان صحت،نکاسی آب اور تعلیم کی کم تر سہولتیں مہیا کی جارہی ہیں. یورپی یونین نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے پینتیس فی صد شہری عرب ہیں لیکن ان کے علاقوں کے لئے شہر کا دس فی صد سے بھی کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے. ہاموکڈ تنظیم کا اپنی رپورٹ میں کا کہنا ہے کہ اسے اسرائیلی وزرات داخلہ نے 1967ء سے 2008ء تک مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخل کئے گئے فلسطینیوں کے اعداد وشمار فراہم کئے ہیں اور صرف سال 2002ء کے اعدادوشمار نہیں دئیے گئے کیونکہ اس سال اور سال رواں 2009ءکے اعداد وشمار دستیاب نہیں تھے. رپورٹ کے مطابق گذشتہ چالیس کے دوران کل آٹھ ہزار دو سو انہتر فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس میں سکونت کے حق سے محروم کیا گیا ہے.سال 2006ء کے دوران ایک ہزار تین سو تریسٹھ فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخل کیا گیا تھا. مشرقی بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں کو شہر کے مستقل رہائشیوں کا درجہ حاصل ہے لیکن اسرائیلی قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اگر وہ مسلسل سات سال سے زیادہ عرصہ اسرائیل سے باہر گزاریں گے یا غیرملکی شہریت حاصل کرلیں گے تو انہیں اس حق سے محروم کردیا جائے گا. ہاموکڈ نے اسرائیلی وزارت داخلہ کے بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پرسال 2008ء کے دوران سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے دور میں مارچ اور اپریل کے مہینوں میں زیادہ تر فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس کی شہریت اور سکونت سے محروم کیا گیا تھا.جن فلسطینیوں کو مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخل کیا گیا تھا ان میں زیادہ تر بیرون ملک رہ رہے تھے اور صرف اڑتیس کیس ایسے تھے جن میں فلسطینی مقبوضہ بیت المقدس سے نقل مکانی کرکے اسرائیل کے مقبوضہ دوسرے عرب علاقوں میں جا آباد ہوئے تھے.

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan