Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

صبرا و شاتیلا دیشت گردی….تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

palestine_foundation_pakistan_sabra-shatila-massacre1

مقدمہ
مشرق وسطیٰ میں بالعموم اور فلسطین میں بالخصوص مظلوم فلسطینی عوام پچھلے چھ دہائیوں سےغاصب صہیونیت کے جس طرح کے مظالم کا شکار ہیں انہیں الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے. مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو سنہ 1948ء سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری ہے. ایک ایسی خونی فلم ہے جس میں مسلسل کردار بدل بدل کر مظلوموں پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں.
قیام اسرائیل کے تریسٹھ برسوں کے بعد آج تک ایسا کوئی دن نہیں گذرا جس میں فلسطینیوں کو اسرائیلی دہشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، خاندانوں کے خاندان اور بستیوں کی بستیاں ویران کر دی گئیں، والدین کو اولادوں سے اور اولاد کو والدین کی نعمت سے محروم کر دیا گیا اور مسلسل کیا جا رہا ہے. لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جنہیں تاریخ میں ہمیشہ اسرائیل کے سیاہ کرتوتوں کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا.
مغربی استعمار کے جن مظالم کا سلسلہ کسی دور میں برطانیہ نے اپنی نوآبادیوں میں شروع کیا تھا، آج وہی سلسلہ اس سے بدترین شکل میں فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں صہیونیوں کے ہاتھوں جاری ہے. صہیونی فاشزم کی ریاستی دہشت گردی پر طرح عالمی برادری خاموش ہے. لگتا ہے کہ یہ ریاست دنیا کے تمام قوانین اورعالمی ضابطوں سے آزاد ہے. فلسطینیوں کی اجتماعی خون ریزی ہو یا انفرادی قتل عام اور ان کی ٹارگٹ کلنگ ہو، ان کی بستیوں کو اجاڑنے کا معاملہ ہو یا صدیوں سے آباد خاندانوں کو ان کے آبائی وطن سے محروم کرنے کی بات ہو، دنیا کی زبان بند ہے. اسرائیلی مظالم کے ان ناقابل فراموش واقعات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ انہیں ایک مختصر مضمون میں نہیں سمیٹا جا سکتا تاہم ان میں “دیریاسین”، الدل، الرملہ، طنطورہ، قبیہ، کفرقاسم، خان یونس، صبرا اور شاتیلا، برج شمالی، حرم ابراھیمی، قانا،جنین کے ناموں سے صہیونی دہشت گردی کے ایسے واقعات ہیں جنہیں کسی صورت میں بھی ذہنوں سے مٹایا نہیں جا سکتا.
انہی ناقابل فراموش واقعات میں ایک اہم واقعہ آج سے اٹھائیس سال قبل لبنان میں صہیونی وحشیوں کے ہاتھوں رونما ہوا. صبرا اور شاتیلا کے نام سے شہرت پانے والے اس واقعےکی آج فلسطینی اٹھائیسوں سالگرہ منا رہے ہیں. خود صہیونی اور یہودی محققین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ لبنان کے مہاجر کیمپوں صبرا اورشاتیلا میں آج سے اٹھائیس سال قبل ڈھائی جانے والی قیامت میں کم ازکم 3500 بے گناہ بچے، بوڑھے، خواتین اور نوجوان خون میں نہلائے گئے تھے.
فلسطینیوں کےایک مہاجر کیمپ میں ہونے والی یہ دہشت گردی آج بھی فلسطینیوں کے لوح دماغ پر تازہ ہے. یہودی جلادوں کا شکار مظلوم فلسطینی آج بھی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ بالآخر صہیونی دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا اور انہیں ان کا اصلی وطن واپس ملے گا، تاہم جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ بد ترین قتل عام اور سفاکیت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ان صہیونیوں کے لیے دنیا آج بھی خاموش ہے. جنگی جرائم کے تحت جنہیں عالمی عدالتوں میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے وہ آج بھی دندناتے پھرتے ہیں. یہ صورت حال دیکھ کر مظلوم فلسطینیوں کا خون کھول اٹھتا ہے. آخر وہ وقت کب آئے گا جب ایک ظالم کو اس کے ظلم کا حساب دینا ہو گا اور مظلوم کو انصاف اور عدل کے مطابق اس کا حق ملے گا.

اسرائیلی جنگی جرائم اور عالمی قوانین
دنیا میں جنگی جرائم کی روک تھام کے لیے قوانین موجود ہیں. چوتھے جنیوا کنونشن میں جنگی جرائم میں ملوث افراد، ریاستوں اور شخصیات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے کئی مجموعہ ہائے قوانین ہیں. ان قوانین میں کسی ریاست کی طرف سے جنگی جرائم کے ارتکاب کی صورت میں اس پرپابندیوں سمیت جرائم میں ملوث افراد کےخلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات کا قیام بھی شامل ہے.
عمومی طور پر جنگی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے. ان میں عام طورپر سولین کا جنگ اور بغیر جنگ کے قتل عام، ان کی گھربدری، کسی خاص طبقے کے ساتھ کسی بھی نوعیت کا امتیازی سلوک ، ٹارگٹ کلنگ، شہروں، بستیوں اور محلوں کو کلی طور پر تباہ کرنا جیسے جرائم جنگی جرائم کی فہرست میں شامل ہیں.
اس کے علاوہ درج ذیل امور بھی جنگی جرائم کی فہرست میں شامل ہیں
1. کسی گروہ کو قومی، نسلی یا مذہبی بنیاد پر انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں قتل کرنا
2. کسی خاص طبقے یا گروہ کو اجتماعی طور پر تشدد کا نشانہ بنانا
3. کسی خاص طبقے کو ایک خاص انداز میں زندگی گذارنے پر مجبور کرنا، چاہ.
4. کسی خاص گروہ پر آبادی کو بڑھانے پرپابندی عائد کرنا.
5. بچوں یا خاص قسمی طقبے کو ایک دوسرے طبقے میں تبدیل کرنا اور انہیں جبرا کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے پر مجبور کرنا بھی جنگ جرائم کی فہرست میں شامل ہے.
یہ تمام وہ جرائم ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں پچھلے چھ عشروں سے فلسطینی عوام پر کسی نہ کسی شکل میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جاری ہیں. فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام،ان کی اجتماعی گھر اور شہر بدری، جنگوں کے دوران اور بغیر جنگوں کے نہتے شہریوں کی ہلاکتیں اور پوری کی پوری بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے حوالے سے ایسے اقدامات ہیں جو قابض اسرائیل سے سرزد ہو رہے ہیں.
عالمی قوانین کی رو سے ہردور میں اسرائیلی فوجی اور سیاسی قیادت جنگی جرائم کی مرتکب ہوتی رہی ہے. جرائم کے ارتکاب پر کئی عالمی عدالتوں میں صہیونیوں کے خلاف مقدمات بھی قائم ہیں تاہم صہیونی لابی کے موثر ہونے کے باعث یہ مقدمات آج تک موثر ثابت نہیں ہو سکے.
معاہدے کے تحت اسرائیل بھی ان عالمی قوانین کا پابند ہے. خود اسرائیل نے جنیوا کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں تاہم اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ جنگی جرائم کا تسلسل جاری ہے بلکہ عالمی قوانین اور حقوق کے ادارے بھی خاموش ہیں.

صبرا اورشاتیلا صہیونیت کا نمایاں ترین جنگی جرم
شاتیلا کیمپ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوب میں فلسطینی مہاجرین کا اہم ترین کیمپ سمجھا جاتا ہے. صبرا کے مقام پر ہونے کی وجہ سے یہ کیمپ صبرا شاتیلا کے نام سے موسوم ہے. کیمپ میں بیشتر پناہ گزین سنہ 1948ء کے دوران اسرائیلی مظالم کے باعث ھجرت کرکے لبنان جانے والوں کی ہے. جن میں زیادہ ترشمالی فلسطین کے شہر الجلیل سے تعلق رکھتے ہیں.
فلسطینی تاریخ میں مہاجرین پر اسرائیلی مظالم کے حوالے سے صبرا اور شاتیلا کیمپ اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے.15 ستمبر سنہ 1982ء میں اس کیمپ میں موجود فلسطینیوں کو اسرائیلی دہشت گرد فوج نے گھیرے میں لے کر کئی روز تک مسلسل فلسطینیوں کو تہہ تیغ کیا . قابض فوج ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کے ہمراہ کیمپ میں داخل ہوئی تو اس کی دہشت گردی میں اس وقت کی لبنانی ملیشیا نے بھی معاونت کی تھی. ابتدائی آپریشن بھی لبنانی فوج نے شروع کیا تھا. یہ رات کا وقت تھا اور اسرائیلی جنگی طیارے لبنانی ملیشیا کو روشنی فراہم کررہے تھے. کیمپ میں سے کسی کو باہرآنے کی اجازت نہ تھی اور نہ میڈیا کے نمائندوں کو اندر جانے کی اجازت دی جارہی تھی. کیمپ کے اندر کیا قیامت برپا تھی. اس کا تذکرہ کرتے ہوئے الفاظ بھی ساتھ نہیں دیتے. شیرخوار بچوں کے تڑپتے لاشوں سے لے کرضعیف العمر افراد کی کے چھیتڑے اڑائے جارہے تھے.
اسرائیل کا ایک تجزیہ نگار آمین کابیلوک اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ کیمپ پر حملہ آور اسرائیلی اور لبنانی فوج کے سامنے ہر زندہ چیز ایک دشمن تھی جس کو ختم کرنا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے. انسانی حقوق کی تنظیموں ریڈکراس اور دیگر اداروں کی جانب سے مسلسل اصرار کیا جاتا رہا کہ ان کہ نمائندوں کو کیمپ کے اندر داخل ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ مظلوم شہریوں کی مدد کر سکیں لیکن خون کے پیاسے صہیونی فوجیوں کا صرف ایک جواب تھا کہ “ان کی خبر لینے کے لیے ہم کافی ہیں”.
دو دون تک جاری رہنے والی اس خونریز دہشت گردی کے بعد جب انسانی حقوق کے نمائندوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی توجا بجا پھیلی لاشوں کی وجہ سے انہیں تل دھرنے کی جگہ نہ مل رہی تھی، 3500 افراد جن میں بیشتر بچے، خواتین، بوڑھے اور نوجوان تھے شہید کر دیے گئے تھے. کیمپ کا کوئی خیمہ یا کوئی خاندان محفوظ نہ تھا. جو زندہ بچ گئے تھے وہ اتنے شدید زخمی تھے کہ ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو گئے تھے.
عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے اسرائیل کی بدترین دہشت گردی ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب اسرائیل نے جنیوا معاہدے کے تحت اقرار کیا تھا کہ وہ سولین کو نشانہ نہیں بنائے گا. اسرائیل نے جو کیا سو کیا. شاتیلا کے مظلوم آج بھی یہ پوچھتے ہیں کی جنیوا کنونشن کہاں ہے.

صبراشاتیلا دہشت گردی…لمحہ بہ لمحہ

بدھ 15 ستمبر 1982ء
صبرا اور شاتیلا کی دہشت گردی 15 ستمبر سے 18 ستمبر تک جاری رہی. اس کا آغاز بدھ پندرہ ستمبر سے ہوا. قابض اسرائیلی فوج نے چار مقامات سے صبرا اور شاتیلا کی طرف پیش قدمی شروع کی. بیروت ایئر پورٹ سے شاتیلاکی طرف، کویتی سفارت خانے سے الفاکھانی ہوٹل کی طرف ،مرفا کے مقام سے نور مانڈی ہوٹل کی طرف اور بیروت عجائب گھر کے قریب سے کورینش کھیتوں کی طرف مارچ شروع کیا گیا. انتقامی کارروائیوں کو موثر بنانے کے لیے لبنانی ملیشیا نے ہراول دستے کا کام کیا.
کیمپ سے کوئی 50 میٹر کے فاصلے پر چاروں طرف سے آنے والی صہیونی فوجی دستے شاتیلا چوک میں جمع ہوئے. اب شام ہو گئی تھی اور صبح تک مزید تیاریاں مکمل کر کے آگے بڑھنے کے لیے اگلے دن کا انتظار کیا گیا.

جمعرات 16 ستمبر
کیمپ کے مکینوں پررعب طاری کرنے کے لیے جمعرات کی صبح ہی سے قابض فوج کے ہیلی کاپٹروں کی فضا میں پروازیں شروع کر دیں. مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے راس بیروت، الحمرا اور مزرعہ کے مقامات سے یہودی ٹینکوں کی ایک دوسری کیھپ بھی کیمپ کی طرف روانہ ہوئی. راستے میں نیشنل موومنٹ کے مزاحمت کاروں کی طرف سے مزاحمت بھی کی گئی لیکن یہ مزاحمت کوئی اتنی موثر نہ تھی.
دوسری جانب اسرائیلی دہشت گردی کے خطرے کو بھانپتے ہوئے شاتیلا کیمپ کے اندر موجود زعماء اور سرکردہ شخصیات نے جمع ہوکر اسرائیلی خطرے کے سدباب کے لیے غور شروع کیا. کیمپ کی اہم شخصیات نے فیصلہ کیا کہ ایک نمائندہ وفد اسرائیلی فوج کے پاس بھیجا جائے جو انہیں یہ پیغام دے کی کیمپ میں کوئی مزاحمت کار نہیں، صرف خواتین بچے اور بزرگ شہری ہیں. چنانچہ فیصلے کے مطابق چار بزرگ شہریوں کا وفد کیمپ سے نکل کرکویتی سفارت خانے کی جانب روانہ ہوا تاکہ صہیونی فوج کو کیمپ کے اندر کی صورت حال سے آگاہ کیا جائے. آگے معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی کسی سے بات چیت ہوئی یا نہیں البتہ اگلے روز ان چاروں کی لاشیں سفارت خانے کے قریب پائی گئیں.جنہیں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا تھا.
جمعرات دن تین بجے قابض فوج کے جنگی طیاروں نے کیمپ پر بمباری شروع کر دی. بمباری شروع ہوتے ہی کیمپ کے مکین وہاں پر تیار کردہ پناہ گاہوں میں آنا شروع ہو گئے کچھ لوگوںنے کیمپ کے عکا اسپتال میں پناہ لی.
شام پانچ بجے قابض صہیونی دہشت گردوں نے اسپتال پر بھی بم گرانے شروع کر دیے. اب تک کئی افراد شہید اور زخمی ہو چکے تھے. اس موقع پر اسپتال میں پناہ گزین افراد میں سے کسی نے خواتین اور بچوں کا وفد اسرائیلی فوج کے پاس بھیجنے کی تجویز دی تاکہ اسپتال پر بمباری کو روکا جا سکے. چنانچہ سعید المصری کی قیادت میں سفید پرچم اٹھائے 50 خواتین اور بچوں کا ایک وفد اسرائیلی کیمپ کی طرف روانہ ہوا. لیکن انسانیت سے عاری ان درندوں نے ان معصوم بچوں اور خواتین کے گروہ پر اندھا دھند فائرنگ اور بمباری شروع کر دی، جس سے وہ سب کے سب موقع پرشہید ہو گئے.
شام چھ بجے قابض فوج کا ایک دستہ کیمپ کے جنوب سے اندر داخل ہوا.خنجر اور چاکو بردار یہ صہیونی درندے ایک ایک خیمے میں جاتے اور وہاں موجود ہر ذی روح کو ختم کر دیتے. بچوں کو اور خواتین کو نہایت بے دردی سے تہہ تیغ کیا گیا. خواتین کی بے حرمتی کے بعد خنجر ان کے سینے میں گھونپ دیئے جاتے اور لاشوں کی بھی بے حرمتی کی جاتی.

جمعہ 17 ستمبر
اگلے روز جمعہ کو صبح ہی سے قابض صہیونی فوج کے کیمپ پر فضائی حملے جاری رہے. دن گیارہ بجے دو مسلح افراد کیمپ میں موجود عکا اسپتال کے کچھ غیرملکی عملے کو جس میں فرانس، فلیپائن، ناروے، مصر فنلینڈ اورسری لانکا کے ڈاکٹر شامل تھےکو بندوق کے زور پر ایک جگہ جمع کیا اور انہیں اسی حالت میں صبرا کیمپ کے مرکزی دروازے پرلایا گیا. ان کے ہمراہ ایک فلسطینی ڈاکٹر سامی طیب اور ایک زخمی بچہ بھی تھا. واپس پہنچنے کے کچھ دیر بعد اسرائیلی طیاوں نے اسپتال پر دوبارہ گولہ باری کی جس میں سامی طیب اور ایک دوسرے فلسطینی ڈاکٹر علی عثمان شہید ہو گئے. اسپتال میں زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے یہ آخری ڈاکٹر تھے جنہیں شہید کر دیا گیا تھا.
چنانچہ کیمپ کےگیٹ پر ناروے کے فرسٹ سیکرٹری نے ان غیرملکی ڈاکٹروں کو اپنے ساتھ گاڑیوں میں بٹھایا جبکہ فلسطینی ڈاکٹر کو دوبارہ کیمپ کے اسپتال روانہ کر دیا گیا.
غیرملکی طبی ٹیم کو بحفاظت نکال باہر کرنے کے بعد ان دو نقاب پوش مسلح دہشت گردوں نے دوبارہ کیمپ کا رخ کیا اور سیدھے اسی اسپتال پہنچے. سب سے پہلے ایک پندرہ سالہ زخمی مفید اسعد کو رسیوں میں جکڑا اور اسے گھسیٹ کراسپتال سے باہر لائے. پہلے اس کے جسم میں گولیاں ماری گئیں اور پھر ایک کلہاڑی کے پے درپے وار کر کےاس کا سر قلم کر دیا گیا. اب کیمپ میں اسرائیلی فوج دوبارہ داخل ہو چکی تھی اور وحشت اور درندری کی سیاہ تاریخ رقم ہو رہی تھی. پورے کے پورے خاندانوں کوشہید کیا جا رہا ہے.حاملہ خواتین اور بچوں پر بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کے بعد انہیں گولیاں مار کر شہید کردیا جاتا. مقداد نامی ایک خاندان کے 39 افراد افراد کو شہید کر دیا اور ان میں ایک بچہ بھی زندہ نہیں بچا.
مقداد کے خاندان کی روفرسا داستان اور دیگرخاندانوں کی داستان غم میں کوئی فرق نہیں. زینب بنت مقداد آٹھ ماہ کی حاملہ تھی، الھام نو ماہ اور وفا مقداد سات ماہ کی حاملہ تھی. جنہیں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا. تین دیگرخواتین کی عمریں تیس سال سے کم تھیں ان کےپیٹ چاک کر کے ان میں موجود انسانی جانوں کو قریب ہی دیواروں پر پٹخا گیا تھا. ایک سات سالہ بچی کی عصمت دری کے بعد اسے شہید کر کے ان اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے. اس طرح کی کیمپ میں کل 200 خواتین کو نہایت وحشت کامظاہرہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا.
اس دن کی اس دہشت گردی کے اگلے مرحلے میں اسرائیلی فوج بلڈوزورں کے ساتھ کیمپ میں داخل ہوئی اور تمام لاشوں کو گھسیٹ کر اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا.

ہفتہ 18 ستمبر
اٹھارہ ستمبر صبر شاتیلا پر قیامت کا آخری دن تھا. بقیہ ایام کی طرح یہ دن بھی کم خون آشام نہ تھا. صبح ساڑھے چھے بجے”سعد حداد” اور “الکتائب” ملیشیا کے مسلح جنگجوٶں نے ایک بار پھرعکا اسپتال پر حملہ کیا. وہاں پرموجود غیرملکی ڈاکٹروں جن میں دو سویڈش، ایک فن لینڈی، ایک ڈنمارک، چار جرمن،تین ہولینڈین، چار برطانوی، دو امریکی، ایک ایک آئرلینڈ اور فرانس کا ڈاکٹر تھا کو ایک جگہ جمع کیا گیا. ایک فلسطینی ملازم نے بھی غیرملکی شہریوں کے ساتھ جان بچا کر نکلنے کی کوشش کی تاہم مسلح دہشت گردوں نے اسے الگ کر کے ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کیا. بعد ازاں اس پر فائرنگ کر کے اسے شہید کر دیا گیا. آخری غیرملکی طبی عملے کو بھی وہاں سے نکال دیا گیا.
سات بجے مسلح جنجگوٶں نے صبرا کالونی اور شاتیلا کیمپ میں تمام افراد کو گھروں سے باہر نکلنے کے اعلان شروع کیے. اعلان سُن کر کیمپ اور صبرا کالونی کے تمام مرد و زن اور بچے خوف کے مارے گھروں سے باہر نکل آئے جہاں انہیں کیمپ کے باہر ایک شاہراہ عام پر جمع کر کے خواتین اور مردوں کو الگ الگ کیا گیا. اس دوران کچھ خواتین نے مَردوں کو الگ کرنے پر مزاحمت کی کوشش کی لیکن انہیں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا. مردوں کو ایک عمارت کی دیوار کےنیچے جمع کیا گیا اور ان پرتوپ سے گولہ باری کر کےتمام کے تمام کو شہید کر دیا گیا. بعد ازاں اسی عمارت کو شہداء کی میتوں پر گرایا گیا. اس کے بعد اسرائیلی فوج کے بلڈوزروں نے لاشوں سمیت ملبے کو ایک جگہ جمع کر دیا.
ایک نارویجن ڈاکٹر بطورعینی شاہد میچلو مچاگن نے اسرائیلی دہشت گردی کا مظاہرے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے سامنے اسرائیلی فوج بلڈوزوں کے ذریعے مکانات مسمار کر کے لاشوں پر گراتی اور لاشوں سے بھرے ملبے کو اٹھا کر بڑے بڑے گڑھوں میں ڈال دیا جاتا.

دہشت گردی کی علامات مٹانے کی کوششیں
گوکہ اسرائیل نے صبرا و شاتیلا میں ہونے والی اس دہشت گردی کو دنیا سے چھپانے کے لیے حتی الامکان کوششیں کیں. شروع ہی سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اہلکاروں کو کیمپ کے قریب پھٹکنے سے روک دیا تھا. تاہم اسرائیل کی ان تمام ترکوششوں کے باوجود دنیا نے دہشت گردی اور سفاکیت کی اس بدترین شکل کو دیکھا اور صہیونی اسے چھپا نہ سکے.
امریکی صحافی “ٹومس فریڈمین” نے اخیار نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ” صبرا شاتیلا کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج نے نہتے شہریوں کے خلاف ایسا سلوک کیا .اس طرح کا سلوک کسی سنگین ترین جنگی جرم کے مرتکب گروہ کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا. اسرائیلی فوجی بیس اور تیس سال کے نوجوانوں کو ایک جگہ جمع کرتے، ان کے ہاتھ اور پاٶں رسیوں اوزنجیروں سے باندھتے اور ان پر توپ کے دھانے کھول دیے جاتے. حتیٰ کہ ان کے جسم کے اعضا،زمین کی گَرد اور کنکر پتھر سب فضاء میں بلند ہوتے اور کسی کی لاش تک سلامت نہ رہتی تھی”.
اسرائیلی دہشت گردوں اور لبنانی جنگجوٶں کے کیمپ سے نکل جانے کے بعد ریڈ کراس کی ٹیم کیمپ میں داخل ہوئی اوراس نے جا بجا بکھری لاشوں کو جمع کرنا شروع کیا. چنانچہ ریڈ کراس کے مطابق انہیں 3297 لاشیں ملیں جن میں سے 137 لاشیں لبنانی شہریوں کی تھیں
دنیا بھر کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے صبرا و شاتیلا دہشت گردی کے عام ہونے کے باعث عالمی سطح پر اسرائیل سے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جانے لگا. چنانچہ اسرائیل نے دنیا کے سامنے خود کو مبریٰ کرنے کے لیے جسٹس “کاھانا” کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی. اس تحقیقاتی کمیشن نے اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم سے مکمل طور پر صرف نظرکرتے ہوئے صرف اس وقت کے وزیردفاع ایرئیل شیرون کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی. حالانکہ سنہ 1977ء کے جنیوا کنونشن میں یہ بات بالکل واضح کر دی گئی تھی کہ جنگی جرائم میں مرتکب کسی بھی شخص یا ریاست کے خلاف سخت قانونی اور عدالتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی.

“کاھانا کمیٹی”…. قاتل ہی منصف ٹھہرے
جسٹس کاھانا کی سربراہی میں اسرائیل کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے نومبر 1982ء میں کام شروع کیا. کمیشن کی رپورٹ میں صبرا شاتیلا میں بے گناہ انسانی جانوں کے قتل عام پراس وقت کے وزیراعظم مناخیم بیگن ،ان کی کابینہ، وزیردفاع ایرئیل شیرون اور آرمی چیف ریفائیل ایٹن کو مورد الزام ٹھہرایا گیا.
کمیشن نے قرار دیا کہ اسرائیلی حکومت نے لبنانی جنگجو ملیشیا کو صبرا شاتیلا کیمپوں اور اس کے گرد فلسطینی مہاجرین کے خلاف کارروائی کی اجازت دینے اور اس میں معاونت کرنے پر بالواسطہ طور پرغلطی کا ارتکاب کیا ہے. تاہم اس میں اسرائیل براہ راست ملوث نہیں. چنانچہ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ حکومت وزیردفاع ایرئیل شیرون کو وزارت دفاع کے عہدے سے ہٹا دے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ واپس لے.

عالمی تحقیقاتی کمیشن کا قیام
کاھانا کمیشن کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر آئرش نوبل انعام یافتہ شون مالک برائیڈ کی نگرانی میں ایک عالمی تحقیقاتی کمیشن بھی قائم کیا گیا. کمیشن میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنئ اور آئیر لینڈ کے ماہرین قانون اور ماہرین جنگ شامل تھے.
اس حد تک کمیشن کی رپورٹ حوصلہ افزا رہی کہ اس میں اسرائیلی حکومت،صہیونی فوج، حملے میں براہ راست ملوث ملیشیا اور کسی بھی حوالےسے اس دہشت گردی میں مدد کرنے والے تمام افراد اور ریاستوں کو برابر ذمہ دار قرا دیا گیا.
رپورٹ میں کہا گیا کہ لبنانی جنگجوٶں کے ذریعے فلسطینیوں کے کیمپ پر اندھا دھند گولہ باری اور سولین پر طاقت کا بے دریغ استعمال عالمی انسانی حقوق، جنگی ضابطوں بالخصوص جنیوا کنونشن کے اصول جنگ کی کھلی خلاف ورزی ہے.کمیشن نے سفارش کی کہ عالمی فوجداری عدالتیں صبرا شاتیلا دہشت گردی میں بلا امتیاز تمام فوجی اور سیاسی شخصیات کے خلاف قانونی کارروائی کریں.
برائیڈ کمیشن میں کہا گیا کہ اسرائیل کی طرف سے صبرا شاتیلا کیمپوں میں دہشت گردی سے اسرائیل کی شروع ہی سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی پالیسی واضح ہوتی ہے.
سنہ 2001ء میں بیلجئم میں ایک بین الاقوامی فوجداری عدالت میں صبرا شاتیلا دہشت گردی کے متاثرین نے سابق اسرائیلی وزیراعظم ائیریل شیرون کے خلاف دعویٰ دائر کیا. ایرئیل شیرون اس وقت اسرائیل کے وزیراعظم تھے. بیلجئم عدالت نے فیصلہ کیا کہ شیرون کی مدت وزارت عظمیٰ کے اختتام کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی. وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹنے کے بعد جلد ہی شیرون کی صحت اچانک خراب ہوئی اور وہ آج تک مسلسل کومے میں ہیں.

خاتمہ
مظلوم فلسطینی عوام صبرا و شاتیلا دہشت گردی کی یاد ایک ایسی حالت میں منا رہے ہیں کہ نہ صرف ان کے اٹھائیس سال قبل لگنے والے زخم تازہ ہیں بلکہ دہشت گردی اور سفاکیت کا یہ سلسلہ اب بھی روز مرہ کی بنیاد پر جاری ہے.
قابض اسرائیل نے 27 دسمبرسنہ 2008ء کو غزہ پراسی طرح کی دہشت گردی کی جنگ مسلط کی اور اس میں 1500 بے گناہ افراد جن میں اکثریت بچوں کی تھی کو شہید اور 5000 کو زخمی کردیا.
غزہ کی پٹی سے یہودی بستیوں اور فوج کے انخلا کے باوجود شہر میں اسرائیلی فوج کی دراندازیاں اور گولہ باری جاری ہے. مغربی کنارے کی صورت حال اس سے بھی بدتر ہے جہاں ہرروز یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کے تشدد سے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں. غزہ میں پچھلے چارسال سے مسلط معاشی ناکہ بندی اسرائیل کی معاشی دہشت گردی ہے. جہاں چار سال کے دوران غربت سوفیصد بڑھ چکی ہے.
مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نسل کشی ایک صورت یہودی آباد کاری کی صورت میں مسلط ہے. بدقسمتی سے مغربی کنارےمیں غیردستوری طور پرح کمران فتح اتھارٹی فلسطینیوں کےخون سے ہاتھ رنگنے والی صہیونی قیادت کی قدم بوسی کرتے ہوئے اس سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہی ہے.
فلسطینی اتھارٹی کو اپنی اوقات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اس کے مطالبے کے باوجود اسرائیل نے غیرقانونی یہودی آبادکاری کا سلسلہ بدستور جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے.
فلسطین ، عرب ممالک اور دنیا بھرمیں موجود فلسطینی صبرا شاتیلا کی یاد مناتے ہوئے دنیا کو بھی یہ پیغام دے رہے کہ وہ اگرچہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ساڑھے تین ہزار افراد کو تو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے ، لیکن کیا وہ مسلسل جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل کو اب بھی لگام نہیں دیں گے.

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan