تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
حال ہی میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حما س نے مصر اور قطر کی جانب سے جنگ بندی کے ترمیم شدہ معاہدے پر اتفاق کرنے کا اعلان کیا اور اس اعلان کے بعد ہی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے رفح پر زبردست بمباری شروع کر دی ہے۔ غزہ کی طرح اب رفح کراسنگ کے علاقے کو بھی تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچانے کی منظم سازش کی جا رہی ہے۔
اسرائیل جو پہلے ہی چونتیس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اب غزہ سے رفح کی طرف پناہ لینے والے شہریوں کی زندگیوں کا بھی دشمن بنا ہوا ہے۔
حما س نے مصر اور قطر کی جانب سے معاہدے میں کچھ ترمیم کے بعد اس معاہدے کو تسلیم کرنے اور اتفاق کرنے کا اعلان کیا ہے تا کہ غزہ میں جنگ بندی ہو اور اسرائیلی فوجوں کا انخلاء ممکن ہو تا کہ غزہ کی از سر نو تعمیر اور فلسطینیوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
حماس کی جانب سے اتفاق کردہ معاہدے کو تین مراحل میں بیالیس دنوں میں مکمل ہونا ہے جس میں غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ مرکزی شرائط کا حصہ ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت چھ مئی کی رات سے ہی رفح کراسنگ پر جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اور فلسطینی شہریوں کو رفح کا علاقہ چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔ غزہ میں مسلسل منظم نسل کشی پر جس طرح عرب دنیا کے حکمران خاموش تماشائی بنے رہے ہیں اسی طرح رفح پر ہونے والی بمباری پر بھی کوئی انوکھا رد عمل آنے کی امید باقی نہیں رہی ہے۔
مصری حکومت کا کردار انتہائی شرمناک ہے۔ ایک طرف رفح کراسنگ کو فلسطینیوں کے لئے مصر آنے کے لئے بند کر رکھا ہے جبکہ دوسری طرف رفح پر ہونے والی اسرائیلی بمباری پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مصری عوام میں اپنی حکومت کے اس بزدلانہ اور غلامانہ رویہ پر شدید غم و غصہ پایا جا رہاہے۔
سوشل میڈیا پر مصری حکمران سیسی کو امریکی پٹھو اور غلام کے القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریکی حکومت جو انسانی حقوق کا واویلا کرتے دم نہیں لیتی مکمل طور پر غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے تمام انسان دشمن اقدامات کی سرپرستی کر رہی ہے۔ امریکی حکومت کی عدم مداخلت نے اسرائیل کو اس فیصلہ تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اب غزہ کے بعد رفح کراسنگ پر حملہ کر رہاہے۔
رفح کراسنگ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں جہاں انسانی زندگیاں خطرے میں ہیں وہاں ساتھ ساتھ غزہ کے متاثرین کے لئے امدادی کاروائیوں میں مشغول غیر سرکاری تنظیموں کے آپریشن بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ایک طرف بمباری میں قتل عام کا خطرہ ہے تو دوسری جانب امدادی سرگرمیوں کے معطل ہونے سے پہلے سے شدید زخمی اور بھوک اور قحط کے مارے مظلوم فلسطینیوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگ گئی ہیں۔
ہمیشہ کی طرح ا س مرتبہ بھی او آئی سی نے ایک بیان جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک اسرائیل کے ساتھ تعاون بند کر دیں۔حیرت کی بات ہے کہ گذشتہ سات ماہ سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی میں مصروف ہے اور آج سات ماہ کے بعد بھی اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی بیانیہ جاری کر رہی ہے کہ تنظیم کے رکن ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا بائیکاٹ کر دیں لیکن اس بیانیہ میں کوئی جان نظر نہیں آتی۔کیونکہ جن ممالک نے سات ماہ تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہیں اورغزہ میں نسل کشی ہوتی رہی ہے اب ان ممالک سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی جاگ اٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ رفح کراسنگ پر اسرائیلی حملہ ناقابل برداشت ہے۔ تو کیا غزہ پر جو جارحیت کی گئی وہ قابل برداشت ہے؟ آج تک اقوام متحدہ کیا کر پائی ہے؟ سوائے زبانی جمع خرچ کے؟ علامہ اقبال نے اپنے زمانے میں اس ادارے کے قیام سے متعلق کہا تھا کہ یہ کفن چوروں کی انجمن ہے۔ یعنی یہ ادارہ انتظار میں ہے کہ انسانوں کا قتل کیا جائے اور ان کے دفن ہونے کے بعد ان کے کفن چوری کئے جائیں