آصف محمود
جناب خورشید ندیم نے فلسطینیوں کو ’سیاسی جدوجہد‘ کا مشورہ دیا ہے اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ ا ن کا یہ مشورہ زمینی حقائق کی روشنی میں کس حد تک قابل عمل ہے؟نیز یہ کہ جنگ فلسطینیوں کا انتخاب ہے یا یہ ان پر مسلط کی جا چکی ہے اور اس جنگ سے گریز کی ہر ممکن کوشش کر کے اور اس کے نتائج دیکھ کر اب فلسطینی ایک ایسی نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہو چکے ہیں جہاں عافیت میں بیٹھے ہم لوگوں کی باتیں ان کی سمجھ سے باہر ہیں اور مقتل میں کھڑے اُن لوگوں کی باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔
سیاسی جدو جہد تو بہت دور کی بات ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے وجود کا ہی قائل نہیں۔ اسرائیل کی پالیسی پہلے دن سے یہی رہی ہے کہ فلسطینیوں کا مکمل صفایا کیا جانا چاہیے۔ اس کا پھیلاؤ اس پالیسی کا عملی اظہار ہے۔ درمیانی وقفے میں اگر وہ ایک ناگزیر برائی کے طور پر ان کے وجود کو تسلیم کر لیتا ہے تو یہ اس کی مہربانی یا عطا یا انسان دوستی نہیں، مجبوری ہے۔
سیاسی جدوجہد کے سراب کو سمجھنے کے لیے مقبوضہ فلسطین کی حالت کو سمجھنا ضروری ہے۔ مقبوضہ جات میں کہنے کو تو فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے لیکن یہاں اسرائیل نے زوننگ کر رکھی ہے اور سارا علاقہ زون اے، زون بی اور زون سی میں تقسیم ہے۔
زون اے پر فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے۔ زون بی پر مشترکہ کنٹرول ہے اور زون سی مکمل طور پر اسرائیل کی انتظامی عملداری میں ہے۔ سب سے ز یادہ رقبہ زون سی میں ہے۔ویسٹ بنک کا 60 فیصد رقبہ زون سی قرار دیا جا چکا ہے۔ ویسٹ بنک میں اسرائیل نے 24 لاکھ ڈنم زمین ضبط کر رکھی ہے۔ ہزار ڈنم کا ایک کلومیٹر ہوتا ہے۔
اب ہوتا کیا ہے، جبر اور طاقت کے ا ستعمال سے فلسطینیوں سے علاقہ خالی کروایا جاتا ہے اور پھر قانون بنا لیا گیا ہے کہ جس علاقے سے ایک خاص مدت کے لیے فلسطینی غیر حاضر ہیں وہ علاقہ اسرائیل حکومت کی ملکیت ہو جائے گا۔ یہ کوئی جذباتی بات نہیں، یہ حقیقت ہے کہ لوگ ہر روز کئی سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے باری باری ایک ایک دن کے لیے ایسے علاقوں کی مساجد میں جاتے ہیں اور انہیں ایک ایک دن کے لیے آباد رکھتے ہیں تا کہ انہیں متروک قرار دے کر گرا نہ دیا جائے۔
مجموعی طور پر فلسطینیوں کو ”غیر حاضر“ قرار دے کر یا علاقے کو کلوزڈ ملٹری زون قرار دیکر اسرائیل نے فلسطینیوں کی 52 لاکھ ڈنم زمین ضبط کر رکھی ہے۔
جن کے خیال میں اسرائیل زمینیں خرید کر بنا، وہ جمع تفریق کر کے غلط فہمی دور سکتے ہیں۔
1948 میں سات لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے اور مہاجر بن گئے۔ ان کی ساری زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادی موجد ہیں کہ فلسطینیوں کو واپسی کا حق ہے مگر اس کے باوجود ان کو یا ان کے بچوں کو واپس ان کی زمین پر آنے کا حق نہیں دیا گیا۔ غزہ اور ویسٹ بنک پر قبضے کے وقت جو فلسطینی علاقے سے باہر گئے ہوئے تھے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔ یہ ساری ز مینیں اب ریاست اسرائیل کی زمینیں قرار دی جا چکی ہیں۔
مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو نئی عمارت بنانے کے لیے پرمٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی فلسطینی کا گھر یا کوئی عمارت گر جائے تو اس کی کہانی وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ اسے نئی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ملبے پر وہ کب تک بیٹھے گا۔ چھوڑ کر جائے گا۔ جب چھوڑ جائے گا تو وہ عمارت متروک قرار پائے گی اور اسرائیلی حکومت کی ملکیت میں چلی جائے گی۔ 71 ہزار عمارتیں اس لیے گرائی جا چکی ہیں کہ ان کے پرمٹ اسرائیل سے نہیں لیے گئے تھے۔
غزہ اور ویسٹ بنک میں کہنے کو فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے رہنے والے فلسطینی ویسٹ بنک نہیں جا سکتے اور ویسٹ بنک کے رہنے والوں کو غزہ جانے کی اجازت نہیں۔ دونوں کو یروشلم یعنی مسجد اقصی جانے کی اجازت بھی نہیں۔ اس کے لیے خاص پرمٹ چاہیے جس کے انکار کی اوسط ستانوے فیصد ہے۔
یہاں خاندانوں کے خاندان تقسیم ہوئے پڑے ہیں۔ کچھ غزہ میں ہیں کچھ ویسٹ بنک میں۔ اقوام متحدہ کی مداخلت سے نقل و حرکت کی اجازت ملی تو کس شرط کے ساتھ؟ اس شرط کے ساتھ کہ ویسٹ بنک سے کوئی غزہ جانا چاہے تو قانونی کارروائی کے بعد اس ضمانت پر جا سکتا ہے کہ پھر کبھی واپس ویسٹ بنک نہیں آ ئے گا۔ جو ایک دفعہ ویسٹ بنک سے غزہ گیا وہ واپس ویسٹ بنک نہیں آ سکتا۔
کچھ فلسطینی وہ ہیں جو مقبوضہ جات کی بجائے اس اسرائیل کے اندر رہ رہے ہیں جو 1948 میں قائم ہوا۔ غزہ اور ویسٹ بنک کے بر عکس یہ وہ ہیں جنہیں اسرائیل نے اپنا شہری قرار دے رکھا ہے اورکہنے کو انہیں ووٹ کا حق بھی دیا گیا لیکن عملا یہ صورت حال ہے کہ انہیں نئی آبادیوں میں گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔کیونکہ وہ ”سوشل اینڈ کلچرل فیبرک“ کے لیے خطرہ ہیں۔ان کا گھر گر جائے تو نئے گھر کی اجازت نہیں۔ یا ملبے پر بیٹھ کر عمر گزار دیں یا غزہا ور ویسٹ بنک چلے جائیں۔ اور ایک بار چلے گئے تو واپسی کی اجازت نہیں ہے۔یہ سیاسی جدو جہد کہاں سے کریں گے؟
مزید شرائط بھی پڑھ لیجیے، بظاہر یہ اسرائیل کے شہری ہیں لیکن ان کے بچے اگر غزہ یا ویسٹ بنک یا ملک سے باہر کہیں اور رہ گئے تو اب وہ واپس نہیں آ سکتے۔ وہ کسی فلسطینی سے شادی کرتے ہیں تو اسے نیشنیلٹی نہیں مل سکتی۔ ا ن کے شناختی کارڈ کا رنگ مختلف ہے۔ ان کی کسی یہودی سے لڑائی ہو جائے تو بیک وقت دو قوانین بروئے کار آتے ہیں۔ یہودی شہری پر دیوانی مقدمہ چلتا ہے اور عرب شہری پر فوجداری کا مقدمہ چلتا ہے۔ اسرائیل کے یہودی شہری دنیا بھر میں جا سکتے ہیں (بشمول ویسٹ بنک کے زون سی کے) لیکن انہیں غزہ یا ویسٹ بنک جانے کی اجازت نہیں۔ ا ن کی شہریت کسی بھی وقت منسوخ کی جا سکتی ہے اور ان کی زمینیں کسی بھی وقت ضبط کی جا سکتی ہیں۔
سیاسی جدو جہد کیسے ہو گی؟ 81 فی صد فلسطینی تو مقبوضہ جات میں رہتے ہیں۔ انہیں تو کوئی انسان ماننے کو تیار نہیں۔صرف 19 فیصد فلسطینی اسرائیل میں رہتے ہیں اور ان کے پاس اب صرف3 فی صد زمین رہ گئی ہے۔ان پر عائد شرائط میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ہیں، اس حالت میں سیاسی جدوجہد کیسے ہو سکتی ہے؟
جب کسی قوم کو محکوم بنا لیا جاتا ہے تو اسے کون سی جدوجہد کرنی چاہیے۔ا س کا جواب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اپنی قرارداد نمبر 37/43 میں دے چکی ہے: مسلح جدو جہد۔ہم اس جدو جہد کے حساب سودوزیاں پر ضرور بات کر سکتے ہیں لیکن معاملہ پھر وہی ہے کہ کہ ہمارا حساب کتاب شاید ان لوگوں کے حساب کتاب سے مختلف ہو جو عشروں سے مقتل میں ہیں اور محصور ہیں۔