غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)سابق ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوگلو نے اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ کے عوام کی استقامت کو سراہا ہے۔
یالووا شہر میں ہیپی نیس پارٹی کے صدر دفتر میں ایک تقریر کے دوران داؤد اوگلو نے 1967ء کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں جو کچھ اسرائیل نے عربوں کے ساتھ کیا تھا اس بار حماس نے وہ اسرائیل کےساتھ کیا ہے۔ فلسطینی مزاحمت نے وہ کچھ کردیا ہے جو فوجیں بھی نہیں کرسکتیں۔
قابض افواج نے گذشتہ سات اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے پر زمینی، فضائی اور سمندری جارحیت شروع کر رکھی ہے جس کے دوران وہ اب تک غزہ پر دو ایٹم بموں کے برابر بارود گرا چکے ہیں جو عالمی جنگ میں ہیروشیما پر گرائے گئے تھےبموں سے بھی زیادہ ہے۔
ایک تقریر میں داؤد اوغلو نے 1967 کی جنگ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے 4 عرب ممالک سے جنگ لڑی جن میں مصر، شام، اردن اور لبنان شامل تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “یہ جنگ صرف 6 دن تک جاری رہی، جس کے دوران “اسرائیل” مصر سے جزیرہ نما سینا، شام سے گولان کی پہاڑیوں، اردن سے مغربی کنارے اور لبنان سے شیبا فارمز پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ سب چھ دن میں ہوگیا۔
داؤد اوغلو نے مزید کہا کہ “آج سے 46 دن پہلے (غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد) اسرائیلی فوج جس کے پاس جوہری بم ہیں امریکی اور برطانوی بحری بیڑوں کے باوجودغزہ جیسے محصور علاقے میں فلسطینی مزاحمت کو شکست نہیں دی ہے۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا “میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے وہ کام کیا جو دوسرے ممالک نہیں کر سکتے تھے۔”
خیال رہے کہ سات اکتوبر کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ میں پندرہ ہزار فلسطینی شہید اور تیس ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔