تاریخ تحریک آزادی کےشہرہ آفاق ناموں کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو بلا شبہ اس میں ہمیشہ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی شہید کا نام ہمیشہ ان قائدین کی فہرست میں شامل رہے گا جنہوں نے اپنی زندگی کا لڑکپن، جوانی حتیٰ کہ عمر کا ایک ایک لمحہ اپنی تحریک اور آزادی کے لیے جدو جہد کے لیے وقف کیے رکھا۔
فلسطینی عوام آج ایک بار پھر اپنے محبوب لیڈر شہید عبدالعزیز الرنتیسی کو یاد کرکے اپنے لہو کو گرمانے اور جذبہ ایمانی کو پھر سے تازہ کرنے جا رہی ہے۔
اس حوالے سے مرکزاطلاعات فلسطین نے بھی ڈاکٹر الرنتیسی شہید کی زندگی کا مختصر احوال ایک رپورٹ کی شکل میں بیان کیا ہے۔ شہید عبدالعزیز الرنتیسی اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے صف اول کے رہ نمائوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی زندگی حقیقی معنوں میں جذبہ آزادی، قربانی اور حب الوطنی سے سرشار تھی۔ اپنے روحانی پیشوا شہید شیخ احمد یاسین کے نقش قدم پرچلتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی جماعت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ یہ دراصل شیخ احمد یاسین ہی کا فیضان نظر تھا اور انہی کے مکتب کی کرامت تھی کہ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی نے بھی دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے باوجود اپنے لیے خاروں سے بھرے راستے کا انتخاب کیا۔
ڈاکٹرعبدالعزیز الرنتیسی کوشہید ہوئے آج11 برس ہوچکے ہیں، لیکن وہ آج بھی فلسطینی عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ ان کی روح آج بھی فلسطینی عوام کے دلوں میں بستی اور ان کےلیے سرمایہ ایمان و جذبہ آزادی کا درجہ لیے ہوئے ہے۔
ابتدائی زندگی
الشیخ عبدالعزیز الرنتیسی کا پورا نام عبدالعزیزعلی عبدالحفیظ الرنتیسی تھا۔ وہ 23 ستمبر1947 ء کو عسقلان اور یافا شہروں کےدرمیان یبنا کے مقام پرپیدا ہوئے۔ سنہ 1948ء کی جنگ کے بعد ڈاکٹر الرنتیسی شہید کا خاندان عسقلان سے غزہ کی پٹی میں منتقل ہوگیا جہاں انہوں نے خان یونس شہر میں پناہ گزین کے طورپر زندگی کی شروعات کیں۔ ھجرت کے وقت شیخ احمد یاسین کی عمرت صرف چھ ماہ تھی۔ شیخ الرنتیسی کی دو بہینیں اور آٹھ بھائی تھے۔یوں ان کا خاندان افرادی قوت کے اعتبار سے ایک خود کفیل تھا۔
تعلیم
چھ سال کی عمر میں عبدالعزیز الرنتیسی نےغزہ کی پٹی میں اسکول کی تعلیم کا آغاز اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے پناہ گزین’’اونروا‘‘ کے ایک اسکول سے کیا، لیکن جلد ہی انہیں اپنے خاندان کی کفالت کے لیے تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑنا۔
تاہم وقفے وقفے سے انہوں نے حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا تا آنکہ سنہ 1965ء میں مصر کی اسکندریہ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بچوں کے شعبے میں تخصص شروع کردیا اور 1972ء میں طب میں ایم ایس سی کی مساوی ڈگری بھی لے لی۔ تعلیم کی تعلیم کے بعد وہ غزہ واپس ہوئے اور سنہ 1976ء میں غزہ کی پٹی میں ناصر اسپتال بہ طور سینیر ڈاکٹر کے خدمات انجام دینا شروع کردیں۔
سیاسی اور جہادی سرگرمیوں کا آغاز
ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی شہید نے غزہ کی پٹی میں بہ طور ڈاکٹرخدمات انجام دینے کے دوران اپنا خاندان بھی منظم کیا اور رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ شہید چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے۔
ناصر اسپتال سے منسلک ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے سیاسی اور سماجی نوعیت کی سرگرمیوں کا بھی آغاز کردیا۔ پہلےمرحلے میں انہیں غزہ کی پٹی میں اسلامی سوسائٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا ممبرمنتخب کیا گیا۔ بعد ازاں غزہ میں ہلال احمر فلسطین کی عرب میڈیکل ایسوسی ایشن کے رکن بنائے گئے۔
سنہ 1978ء میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں شعبہ برائے اطفال میں بہ طور لیکچرار خدمات شروع کیں۔
سنہ 1983ء میں صہیونی حکام کو ٹیکس ادا نہ کرنے کی پاداش میں انہیں حراست میں لیا گیا تاہم کچھ عرصہ بعد رہا کردیا گیا۔ ان کی دوسری گرفتاری 15 جنوری 1988ء کو ہوئی اور اکیس روز تک جیل میں پابند سلاسل رہے۔
سنہ 1987ء میں حماس نے دانشورں کا ایک گروپ قائم کیا اور ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی شہید کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ یہ تنظیم دراصل ڈاکٹر الرنتیسی ہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔
انہیں 04 فروری 1988ء کو دوبارہ حراست میں لیا اور اڑھائی سال تک جیل میں قید کیے رکھا۔ ان پر اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں کا الزام عاید کیا گیا اور چار ستمبر 1990ء کو رہا کیا گیا۔ انہیں 14 دسمبر 1990ء کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔
سنہ 17 دسمبر 1992ء کو اسرائیل نے 400 اہم شخصیات کو فلسطین بدر کرکے جنوبی لبنان بھیج دیا گیا۔ انہیں لبنان میں مرج الزھور میں رکھا گیا۔ بالآخر ایک معاہدے کے تحت انہیں دوبارہ فلسطین واپس کیا گیا۔ اس دوران شیخ عبدالعزیز الرنتیسی ان چارسو افراد پر مشتمل گروپ کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ شیخ ابھی مرج الزھور ہی تھے کہ اسرائیل کی عدالت نے انہیں جیل کی سزا سنا دی اور سنہ 1997ء تک جیل میں قید رہے۔
سنہ 1987ء میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو شیخ عبدالعزیز الرنتیسی اس کے بانی رہ نماء قرارپائے۔ پہلی تحریک انتفاضہ کے دوران انہیں حراست میں لیا گیا۔ وہ نو دستمبر 1987ء سے 15 جنوری 1988ء تک پابند سلاسل رہے۔ صرف ایک ماہ کی رہائی کے بعد 04 مارچ 1988ء کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا اور اڑھائی سال تک جیلوں میں قید رہے۔ ان کی گرفتاریوں اور رہائی کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ اپنی اسیری کےدوران سنہ 1996ء میں انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں بھوک ہڑتال شروع کی۔ ایک ماہ تک جاری رہنے والی بھوک ہڑتال کے بعد انہیں 27 دیگر افراد کے ہمراہ رہا کیا گیا۔
سنہ 1990ء میں انہوں نے جیل میں دوران حراست ہی قرآن کریم مکمل طورپر حفظ کرلیا۔ ان کے ہمراہ اس وقت شیخ احمد یاسین شہید بھی تھے۔ دوران حراست انہوں نے جذبہ حریت کو مہمیز دینے والے اشعار بھی لکھنا شروع کیے اور قید ہی میں انہوں نے اپنا ایک طویل مضمون بھی لکھا جو بعد ازاں مختلف عربی اخبارات کے صفحات کی زینت بنا۔
دس جون 2003ء کو صہیونی فوجیوں نے انہیں ایک قاتلانہ حملے میں شہید کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں بچ نکلنے میں کامیاب رہے تاہم ان کے قافلے میں شامل ایک بچی سمیت متعدد راہ گیر شہید ہوگئے۔ انہیں ایک جنگی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بمباری کرکے شہید کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
24 مارچ 2004ء کو شیخ احمد یاسین کی شہادت کے دو روز بعد حماس کی قیادت نے ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی کو شیخ احمد یاسین کاجانشین منتخب کیا۔ تاہم 17 اپریل 2004ء کو قابض سفاک صہیونی فوجیوں نے ایک اپاچی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی بھی ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنے محسن و مربی الشیخ شہید احمد یاسین سے جا ملے۔ یوں انہوں نے اپنی پوری زندگی سعادت کے ساتھ گذاری اور آخر کار شہادت کی موت کے ساتھ سرخرو ہوئے۔