بیروت (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے امریکا کی طرف سے سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی سے متعلق پیش کی گئی قرار داد ویٹو کرنے کو فلسطینی قوم کے خلاف سنگین جرم قرار دیا ہے۔
حماس کے سینیر رہ نما عزت الرشق نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں صہیونی دشمن کے ساتھ ساتھ برابر کا مجرم ہے۔ امریکا نے ثابت کردیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے قتل عام میں کھلم کھلا مجرم ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ایک سینئیر رہ نما عزت الرشق نے اسرائیل پر انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ الزام سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطینی اسیران کی ایسی تصاویر سامنے لانے کے بعد دھرا گیا ہے۔ تصاویر میں اسرائیلی فوج نے ان اسیر فلسطینیوں کے زیر جامہ کے اتارے جانے کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر دکھائی ہیں۔
اسرائیل کی اس انسانیت کے خلاف توہین آمیز اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرنے والے عزت الرشق فلسطین سے باہر جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس واقعے کا نوٹس لینے کے لیے کہا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان اسیران کی رہائی کے لیے مدد کی جائے ۔
بین الاقوامی صلیب احمر نے بھی فلسطینی اسیران کی نیم برہنہ تصاویر بنا کر اچھالے جانے پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے تمام اسیران کو عزت اور وقار کے ساتھ رکھا جانا چاہیے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان کے حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے اسرائیلی ٹی نے بھی ان فلسطینی اسیران کی اس حالت میں اپنی فوج کی بنائی ہوئی فوٹیج دکھائی ہے۔ اسرائیلی ٹی وی کے مطابق یہ حماس کے جنگجو ہیں جنہیں غزہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ انہیں نیم برہنہ کر کے ان کے سر نیچے کیے گئے ہیں اور غزہ کی گلی میں بٹھایا گیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے اس بارے میں ایک سوال پر اس انداز کی گفتگو کی ‘ہم ان افراد کی بات کر رہے ہیں جنہیں جبالیا سے حراست میں لیا گیا ، جو حماس کے لیے ایک محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم فوجی عمر کے حامل مردوں کی بات کر رہے ہیں، جنہیں عام شہریوں کی آبادی سےکئی ہفتے پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔ ‘
ان تصاویر میں سے ایک میں دکھایا گیا ہے ‘ 20 سے زائد لوگ گلی میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے نیم برہنہ ہیں۔ ان کے آس پاس ایک درجن کے قریب چپلیں اور جوتے بکھرے ہوئے ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں نیم برہنہ افراد کو ایک فوجی ٹرک کے عقبی حصے میں گھستے ہوئے دکھایا گیا ہے۔’
ان تصاویر کو دیکھنے کے بعد کچھ فلسطینیوں نے انہیں پہچان لیا ہے اور کہا ہے ان میں ان کے رشتہ دار بھی شامل ہیں جن کا حماس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لندن میں موجود ایک عربی زبان کے صحافتی ادارے’ العربی الجدید’ نے کہا ہے ان میں شامل ایک صحافی ‘العربی الجدید’ سے وابستہ ہے۔ ہم اپنے اس کارکن کی گرفتاری اور توہین کی مذمت کرتے ہیں۔’العربی الجدید’ نے اس صحافی کا نام ‘ضیا کہلوت’ بتایا ہے۔
اس ادارے نے بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ دیا کہلوت اور دیگر فلسطینی شہریوں کی گرفتاری کی مذمت کی جائے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے ‘کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلستٹس’ کی طرف سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ دیا کہلوت کو فوری رہا کیا جائے۔
ادھر بعض فلسطینی شہریوں نے ان افراد کی گرفتاری کی جگہ کی تصاویر سے شناخت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو بیت لاھیا سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس علاقے کو اسرائیلی فوج حکماً اور جبراً خالی کراتی رہی ہے۔ اسرائیلی ٹینکوں نے اس علاقے کو کئی ہفتے پہلے محاصرے میں لیا تھا۔
ایک امریکی فلسطینی شہری ہانی المدھون ورجینیا میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ان اسیروں میں ایک ان کا رشتہ دار بھی ہے جس کا حماس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ‘معصوم شہریوں کا حماس یا کسی دوسرے گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ممتاز فلسطینی سیاستدان حنان عشروای نے کہ ‘ایکس’ پر کہا یہ تصاویر فلسطینی مردوں کی کھلی اور بد ترین توہین ہے۔ ان لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر اور انہیں برہنہ کر کے اسرائیلی فوج اپنی جنگ میں جیتی ٹرافیوں کی صورت دکھا رہی ہیں۔ یہ شرمناک ہے۔’