کراچی (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) جامعہ کراچی میں دوسری بین الاقوامی یجہتی فلسطین کانفرنس سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں فوری جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کیااور کہا کہ فلسطین کا مسئلہ اب عرب یا مسلمانوں کانہیں بلکہ عالم انسانیت کا مسئلہ ہے۔عالمی برادری فلسطین کا مسئلہ حل کرانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
دوسری بین الاقوامی یکجہتی فلسطین کا نفرنس کا اہتمام فلسطین اکیڈمک فورم، فلسطین فاؤنڈیشن آف پاکستان نے کیا جبکہ کانفرنس کی صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر داکٹر خالد عراقی نے کی۔ کانفرنس میں ترکیہ،ملائیشیا، انڈونیشیا، ایران اور رشین فیڈریشن کے قونصل جنرل اور نمائندوں نے شرکت کی۔کانفرنس سے کلیہ اسلامک اسٹڈیز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی، کلیہ سماجی علوم کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر تمام شرکاء نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا۔
بین الاقوامی یکجہتی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہاکہ ہم یہاں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جمع ہوئے ہیں، یہ مسلمانوں اور عربوں کاہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔یہ انصاف اور مساوات کا معاملہ ہے۔ عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے حل میں ناکام ہو چکی ہے۔مغربی حکومتیں بھی اپنے دوہرے معیار کی وجہ سے بے نقاب ہو چکی ہیں۔مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر دونوں ہی نو آبادیاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلرنے ہاؤس میں ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین مٰں فوری جنگ بندی اور غزہ پر جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ جتنے امدادی کارکنان اب تک غزہ میں مارے گئے ہیں کسی جنگ میں نہیں مارے گئے۔ انہوں نے عالمی عدالت انصاف میں پیش کئے گئے پاکستانی موقف آزاد اور خود مختار فلسطین کی حمایت کی اور کہا کہ ہم فلسطینیوں کے حق واپسی اور حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملائیشیا کے قونصل جنرل ہرمن ہاردیناتا نے کہا کہ فلسطین میں 2.3 ملین لوگ بے گھر ہیں، شہادتیں 30 ہزار کے قریب ہیں جبکہ مرنے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے، غزہ کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے یہ فلسطین کی کل تصویر ہے۔
ترکیہ کے قونصل جنرل cemal sangu نے اس موقع پر کہا کہ کہ غزہ میں جرائم ہی نہیں فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری (مسلم دنیا) کی جانب سے حمایت میں تاخیر کے سبب اسرائیل نے اس مسئلہ کو فلسطین سے ہٹا کر حماس کا مسئلہ بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے کہ ہم لوگ فلسطین کے حوالے سے روزانہ ایک نئی شماریات پیش کر رہے ہیں لیکن کچھ نہیں کر پا رہے۔ اس وقت اس مسئلہ پر تمام امہ کو متحد ہونا پڑے گا، اگر اسرائیل کے خلاف متحد نہ ہوئے اور فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار نہیں کیا تو آج اسرائیل کی زد پر فلسطین ہے کل لبنان ہوگا پھر ترکیہ اور مزید بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ ہمیں سوال کرنا ہوگا کہ مسلم دنیا اسرائیل کے مقابلے میں کیوں خاموش ہے، یہ جاگنے اور سوال کرنے کا وقت ہے۔ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انڈونیشیا کے قونصل جنرل Dr June kuncoro hadiningrat نے اس موقع پر کہا کہ یہ وہ وقت ہے کہ اب ہمیں سلامتی کونسل کے ویٹو پاور اراکین کی تبدیلی کے لیے سوچنا ہوگا۔ رشین فیڈریشن کے نمائندہ Satinslove نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل حسن نوریان نے کہا کہ 1917 میں برٹش رولرز نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنی شروع کی تھی اور 1948 میں یہودیوں نے فلسطین کی 78 فیصد زمین پر قبضہ کرکے اپنی ریاست کا اعلان کر دیا۔ امام خمینی نے کہا تھا کہ اسرائیل کا وجود عالم اسلام کے سینے میں خنجر کی مانند ہے لہٰذا ایران اسرائیل کی جانب سے کیے گئے ہر ظلم و بربریت کی مذمت کرتا ہے۔ہم فلسطینیوں کے حق واپسی، حق خود ارادیت او ر دفاع کا حق کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور یہ اقوام متحد ہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے۔
ڈاکٹر شائستہ تبسم نے اس موقع پر کہا کہ فلسطین میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور فلسطین میں جاری اسرائیل درندگی کے کچھ پوشیدہ اسباب بھی ہیں۔انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے advisory opinion دیا ہے کہ فلسطین میں لوگوں پر اسرائیلی جارحیت ”نسل کشی“ ہے، اسرائیل پورے غزہ پر قابض ہونا چاہتا ہے کیونکہ دستاویزات بتاتے ہیں کہ غزہ میں تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں جو غزہ کے کوسٹل ایریا میں ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہاں کوئی قانون نہیں، اسپتال تباہ ہونے کے سبب میڈیکل کی سہولیات ناپید ہوچکی ہیں، مساجد گرائی جاچکی ہیں، 30 ہزار شہادتوں میں 50 فیصد کے قریب بچے ہیں، لاکھوں افراد بیگھر ہیں، کچھ اسی طرح کی صورتحال کشمیر میں بھی ہے وہاں کے لوگ بھی بربریت کا شکار ہیں۔
ڈین فیکلٹی آف اسلامک لرننگ ڈاکٹر زاہد علی زاہدی نے اس موقع پر کہا کہ اسرائیل یہودیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صیہونیت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، یہودیت سے بات ہوسکتی ہے لیکن صیہونیت سے بات نہیں ہو سکتی۔انھوں نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا کہ یہودیوں پر کبھی بھی مسلمان ریاستوں میں ظلم نہیں ہوا، ان پر جو ظلم ہوا ہے غیر مسلم ریاستوں میں ہوا ہے، مسلمانوں کی سرزمین میں انھیں آنے سے کسی نے نہیں روکا لیکن مسلمانوں کی سرزمین پر یہودیوں کا قبضہ کرنا اور انھیں ان کے وطن سے ہی باہر نکال دینا کہاں کا قانون ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسی لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے میں بہت فائدے ہیں، اسرائیل ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بہت ایڈوانس ہے تاہم اب یہ ”وہمی بات“ بھی حماس نے ختم کر دی اور اسرائیل کتنا technological advances ہے یہ حماس نے 7 اکتوبر کو ہی بتایا جبکہ اس سے قبل 33 روزہ جنگ میں لبنان کی حزب اللہ بھی بتا چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ عرب اسرائیل کا نہیں پورے عالم اسلام کا مسئلہ اور انسانیت کا معاملہ ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے تمام مہمانوں اور شرکائے کانفرنس کا شکریہ ادا کیا