غزة اسرائیلی نازی غاصب ریاست نے غزہ کی پٹی کے عوام پر ظلم اورجبر کے بدترین پہاڑ توڑنے اور انہیں غزہ کی پٹی سےنکال باہر کرنے کے لیے تباہ وبربادی، قتل وغارت گری اور وحشیانہ جنگی جرائم کے بدترین کا ارتکاب شروع کررکھا ہے۔194 دنوں سےجاری اسرائیلی وحشت اور بربریت کا مقصد غزہ کے باشندوں میں مایوسی پھیلانا اور انہیں غزہ کی پٹی سے نکال باہر کرنا تھا مگر غزہ کے باشندوں کی طرف سے جس ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہر کیا گیا اس نے صہیونی غاصب دشمنوں کو حیران اور ششدر کردیا ہے۔
فلسطینیوں پر شکست مسلط کرنے والا مجرم خود شکست خوردہ اور مایوس ہے کیونکہ غزہ کے باشندوں نے تمام تر جبر اور مظالم کے باوجود غزہ کو چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔ غزہ کے عوام نے جبری ملک بدری کے جرم پر بہ زبان حال اور بہ زبان قال ثابت کیا ہے کہ فلسطینی ’ارض وطن سمندر سے دریا‘ تک کے اپنے دیرینہ اصول اور مطالبے پرقائم ہیں۔ فلسطینیوں نے دشمن کو پیغام دیا ہے کہ نیتن یاھو اس کا مجرم ٹولہ دفع ہوجائیں۔ ان کا فلسطین میں کوئی حق نہیں۔ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے‘۔
فلسطینیوں کی امید کو شکست دینے ک مکروہ صہیونی عزام کی ناکامی غزہ میں دیر البلح کے ساحل پر شہریوں کی تفریح سے لی جا سکتی ہے جہاں بچوں کو کھیلتے اور شہریوں کو وہاں پرتفریح کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ساحل سمندر پر فلسطینیوں کی موجودگی فلسطینی قوم کی استقامت،ثابت قدمی، امید اور نصرت کی علامت ہے جب کہ قابض دشمن کی شکست وریخت اور مایوسی کا برملا اظہار ہے۔
غزہ میں موجود دیر البلح ساحل کا ایک اور منظرسوشل میڈیا پروائرل ہے جس میں غزہ کے عوام کی ثابت قدمی کو ان کے چہروں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اسرائیل کی جنگی مشین اپنی تمام تر رعونت کے باوجود فلسطینیوں کی زندہ رہنے اور غزہ میں آباد رہنے کی خواہش کو ختم نہیں کر سکا۔
دوسری جانب صہیونی فوجی مجرم کی طرف سے ان مناظر کو شکست، غیض وغضب اور شکست وریخت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسےفلسطینیوں کی مطلق نصرت اور فتح اور دشمن کی مطلق شکست قرار دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے ایک سرکردہ اسرائیلی صحافی ’ألموگ بوكير‘ نے اسے فلسطینیوں کی ’مطلق فتح‘ قرار دیا۔اس نے لکھا کہ یہ منظر مجھے تکلیف دے رہا ہے کیونکہ زیکیم کے ساحل کو اسرائیل نے فوجی زون قرار دے کر وہاں اسرائیلیوں کو جانے سے روک دیا گیا ہے لیکن فلسطینی کھلے عام ساحل سمندر پر ہیں۔ وہ وہاں سمندر میں نہاتے اور خوش باش ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جنگ ہوئی ہی نہیں۔
وسطی غزہ میں بحیرہ روم کے ساحلی شہر دیر البلح میں بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
دیر البلح کے ساحل سمندرکے مناظرمیں بچوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انہیں جنگ کی وجہ سے گھروں سےباہر نکال دیا گیا ہے اور وہ بے گھرہونے کے بعد ساحل سمندر پراپنا وقت گذارتے ہیں۔
ساحل سمندر پر فلسطینیوں کی موجودگی اور ان کے جشن کو اسرائیلی فوجی حلوں اور صہیونی عام کی جانب سے پریشانی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔