سلطان عبد الحمید ثانی کا نام ہمیشہ تاریخ فلسطین میں یاد رکھا جاتا ہے۔ مسئلہ فلسطین حق وباطل کی ایک ایسی سرخ لکیر ہے کہ جس نے اپنے حمایتیوں اور مخالفین کو تاریخ میں رقم کر رکھا ہے۔ سلطان عبدالحمید ثانی ترکی کے شہر استنبول میں 21ستمبر 1842ء کو پیدا ہوا اور آپ نے 1876ء سے 1909ء تک سلطنت عثمانیہ کے منصب پر ذمہ داری نبھائی۔ سلطان کی زندگی میں جہاں کئی ایک جنگوں کی ناکامی اور کامیابی رقم ہے وہاں ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں سلطان عبد الحمید کا کردار کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ان کے زمانہ حکومت میں مغربی سامراج کی جانب سے برصغیر سمیت مغربی ایشیائی ممالک اور افریقی ممالک میں نو آبادیات کے اثرات مسلم دنیا کے لئے بڑا چیلنج بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف عثمانی شناخت پر زور دیا جا رہا تھا تو دوسری طرف عرب تحریک نے عرب قومیت کا نعرہ بلند کر رکھا تھا۔ان تمام حالات کا نتیجہ یہ نکل رہا تھا کہ سلطنت عثمانیہ بدلتے ہوئے حالات میں متاثر ہو رہی تھی۔اسی زمانہ میں 1881ء میں فرانس نے تیونس اور 1882ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ جما لیا تھا۔انہی حالات میں عرب قومیت کی تحریک کو مزیدفروغ ملا کیوں کہ اس کی پشت پناہی یورپی ممالک بالخصوص فرانس کر رہا تھا۔سلطنت عثمانیہ کے لئے چیلنجز بڑھتے چلے گئے۔
ایسے حالات میں مسئلہ فلسطین بھی سلطنت عثمانیہ اور سلطان عبد الحمید کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ فلسطین میں بھی برطانیہ اپنے قد م جمانے کی کوشش میں تھا جو کہ بعد میں یہ کوشش کامیاب ہوئی۔1882ء میں مصر پر قبضہ کے بعد نہر سوئز پر بھی برطانوی استعمار نے کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اگست 1897ء میں بیسل، سوئٹز لینڈ میں پہلی عالمی صہیونی کانگریس کے موقع پر صہیونیوں کے بانی تھیوڈرز ہرٹزل نے world zionist organizationکی بنیاد رکھی جس کا مقصد فلسطین میں صہیونیوں کی جعلی ریاست قائم کرنا تھا۔ تھوڈر ہرزل نے مغربی استعماری قوتوں بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کی تائید کے بعد خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی سے ملاقات کے لئے کوششیں کرنے لگا او ر 1896ء سے 1902کے درمیان متعدد مرتبہ استنبول آیا اور ابتداء میں اس بات کا اظہار کرتا رہا کہ اگر سلطنت عثمانیہ یہودی مہاجرین کو پناہ دے تو وہ سلطنت کے ماتحت رہیں گے اور اپنے کاروبار کے ذریعہ بڑی رقم ٹیکس کی مد میں دیں گے۔سلطان عبد الحمید نے صہیونزم کے بانی کی اس طرح کی تمام تر پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اس بات کی قطعا اجازت نہ دی جو کچھ ہرزل چا ہتا تھا۔جب معاملہ یہودیوں کے فلسطین میں آباد کئے جانے تک پہنچا تو سلطان کی حمیت و غیرت نے اس بات کی بھی اجازت نہ دی کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جائے۔سلطان عبد الحمید اس بات سے آگاہ تھے کہ صہیونی خطر ناک عزائم کے ساتھ فلسطین میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور سلطان کا موقف واضح تھا کہ کسی طور پر بھی بیت المقدس کے شماریات میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
چنانچہ سلطان نے فلسطین کا علاقہ صہیونیوں کو دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ ساتھ فلسطین میں صہیونیوں کے لئے زمین خریدنے پر بھی پابندی عائد کی۔حالانکہ تھیوڈر ہرزل نے سلطان کو خطیر رقم کی پیشکش بھی کی لیکن سلطنت عثمانیہ کے معاشی بحران کے باوجود بھی سلطان نے صہیونیوں کی اس پیشکش کو سازش ہی قرار دیا اور پیشکش کو مسترد کر دیا اور تاریخی جملے کہے:”میں زمین کا ایک فٹ کا ٹکڑا بھی نہیں بیچ سکتا کیونکہ یہ میری نہیں بلکہ عوام کی ملکیت ہے۔میری رعایا نے یہ سلطنت اپنے خون سے حاصل کی ہے اور خون ہی سے اس کی آبیاری کی ہے۔اس سے پہلے کہ ہم اسے اپنے ہاتھ سے جانے دیں، ہم دوبارہ اسے اپنے خون سے ڈھانپ لیں گے“۔
یہ سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبد الحمید کی اصل روح کی آواز تھی جسے انہوں نے بہ بانگ دہل بلند کیااور فلسطین کا دفاع کیا۔
دور حاضر کا استنبول رجب طیب اردگان کی قیاد ت میں ان تمام اقداروں اور احساسات سے عاری نظر آتا ہے جن کا احیاء سلطان عبد الحمید ثانی نے کیا تھا۔حالانکہ سخت ترین معاشی مشکلات کے زمانے میں سلطان نے صہیونیوں سے امداد یا مالی مدد اور پیش کش کو مسترد کر کے رہتی دنیا تک ایک اصولی فیصلہ کی بنیاد رکھی تھی لیکن آج کا طیب اردگان معاشی مسائل کو بہانہ بناتے ہوئے نہ صرف عوامی رائے کا خیال نہیں رکھ رہا بلکہ عالم اسلام کے ساتھ ایک ایسی خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے جو کہ ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔
تاریخ کا قانون ہے کہ حق کا ساتھ دینے والے بھی تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں اور باطل کی حمایت کرنے والوں کو بھی تاریخ یاد رکھتی ہے۔آج سلطان عبد الحمید ثانی اپنے تاریخی کردار کے باعث کروڑوں مسلمانوں اور فلسطینی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔لیکن رجب طیب اردگان نے فلسطینی مظلوموں کے قاتل اسرائیلی صدر کو استنبول میں خوش آمدید کہہ کر نہ صرف سلطان عبدالحمید ثانی کی قبر کو جھنجوڑ دیا ہے بلکہ ترکی غیور عوام سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور خاص طور پر فلسطین کے بے گناہوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔
اسرائیلی صدر اساق ہرزوگ کا استنبول میں پر تپاک استقبال ترکی کے راستوں کو واضح کر رہا ہے کہ کہ ترکی مزید فلسطین کا حامی نہیں رہا ہے۔ عرب دنیا کے حکمرانوں کی طرح ترکی نے بھی اسرائیل کے ساتھ نرم گوشہ اختیار کر لیا ہے۔ حالانکہ ترکی پہلے ہی اسلامی دنیا میں ایسا ملک ہے کہ جس نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے او ر تجارت سمیت سفارتی تعلقات رکھتا ہے۔ لیکن اب ایسے حالات میں کہ جب مسئلہ فلسطین تاریخ کے سنگین اور نازک دور سے گزر رہا ہے ترکی کے صدر اردگان کی جانب سے اسرائیلی صدر کو ترکی میں خوش آمد کرنا فلسطینیوں کے لئے شدید تکلیف اور اضطراب کا باعث ہے۔
ایک طرف عرب دنیا کے ممالک ہیں کہ جو فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ چکے ہیں اور اب غیر عرب ملک ترکی کے اس اقدا م نے مسلم دنیا کے لئے نئے سوالات کوجنم دیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے مسلسل جدو جہد میں مصروف عمل ہیں۔لہذا یہ ہر انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو کم سے کم انسان ہونے کے ناطے ہی انسانیت کے دفاع کی بات کرے اور فلسطینیوں کی آواز میں آواز ملائے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیلی صدر کو ترکی دعوت دے کر اپنے ان تمام پرو فلسطینی دعووں کی خود نفی کر دی ہے جن میں وہ فلسطین سمیت مسلم دنیا کے ہیرو بننا چاہتے تھے۔یقینا جہاں سطان عبدالحمید ثانی کو تاریخ میں سنہرے حروف میں یا د رکھا جائے گا وہاں ساتھ ساتھ تاریخ کے سیاہ باب میں طیب اردگان بھی شامل رہیں گے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان