غزہ (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) اقوام متحدہ کے بچوں کےادارے (یونیسیف) کی ترجمان ٹیس انگرام نے کہا ہے کہ “غزہ کے بچوں کی ٹوٹی پھوٹی لاشیں اور بکھری ہوئی زندگیاں ان پر مسلط ہونے والے ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہیں”۔
غزہ میں اپنے مشن سے واپسی کے بعد جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انگرام نے مزید کہا کہ”ہر 10 منٹ میں ایک بچہ شہید یا زخمی ہو رہا ہے۔ بچوں کے قتل اور معذوری کو روکنے کا واحد راستہ جنگ بندی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ وہ زخمی بچوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ نہ صرف ہسپتالوں میں، بلکہ سڑکوں اور عارضی خیموں میں، اپنی زندگیوں کو جاری رکھے ہوئے تھے جو مستقل طور پر بدل چکی ہیں”۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ “فلسطینی وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ تعداد جس میں 12,000 سے زائد بچوں کے شہادت کی دستاویز کی گئی ہے یقینی طور پر ایک کم اندازہ ہے۔ غزہ جنگ میں بچوں کی شہادتوں کے واقعات بہت زیادہ ہیں”۔
انگرام نے صحافیوں کو یوسف نامی ایک 14 سالہ لڑکے کی کہانی سنائی، جس سے اس کی ملاقات خان یونس شہر کے ایک فیلڈ ہسپتال میں ہوئی۔ اس نے کہا کہ اس کی تلاشی لی گئی، گھنٹوں پوچھ گچھ کی گئی اور پھر اسے گولی مار دی گئی۔
7 اکتوبر سے اسرائیلی قابض فوج نے امریکی اور یورپی حمایت سے غزہ کی پٹی کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پر قابض فوج کی مسلسل جارحیت کے نتیجے میں 33,843 شہید اور 76,575 افراد زخمی ہوئے، اس کے علاوہ پٹی کی آبادی سے تقریباً 1.7 ملین افراد بے گھر ہیں۔