Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ اور آپریشن طوفان الاقصیٰ کے حقائق

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سات اکتوبر کی صبح غزہ کی سرزمین سے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کے مسلح گروہوں القسام اور القدس بریگئیڈ نے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ایک جوابی کاروائی کا آغاز کیا جو مسلسل چار گھنٹوں تک جاری رہی اور سات مختلف شہروں میں یہ آپریشن کیا گیا، اس کاروائی کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا گیا۔فلسطینی مزاحمت کاروں کی عظیم الشان کاروائی کے بعد آج بیس روز گزر چکے ہیں اور غزہ پر صیہونی جارحیت بھی جاری ہے، ہزاروں فلسطینی شہید بھی ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ مسلسل فلسطینی عوام پر صیہونی جارحیت کو نشر بھی کر رہے ہیں۔ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ تمام تر صیہونی جرائم کی ذمہ داری فلسطینی عوام پر عائد کر دی جائے۔اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ فلسطینی مزاحمت اور غزہ کے عوام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا جواب دیا جائے اور عوام کے سامنے حقیقت پر مبنی گفتگو پیش کی جائے اور زمینی حقائق کے بارے میں آگہی فراہم کی جائے۔
طوفان الاقصیٰ معرکے کا تجزیہ و تحلیل کرتے وقت تنہا ٹی وی رپورٹس پہ ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان دنوں جو صورتحال الیکٹرانک میڈیا سے دکھلائی جارہی ہے، کہ مثلاً صھیونی رژیم کی وحشیانہ بمباری کے اثرات جس میں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ شہریوں کی دلسوز شہادتوں اور تباہ شدہ عمارتوں کا بیان ہوتا ہے، کہ جس کے نتیجہ میں سوائے اشک و آہ و احساس شکست و آوارگی کے مخاطب کے لئے اور کچھ نہیں بچتا اور پھر بارہا یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ: آیا واقعاً حماس کا یہ آپریشن اتنا قیمتی ہے جس کے لئے اتنی بڑی قیمت ادا کی جارہی ہے؟!!یہ درست ہے کہ غزہ پہ توڑے جانے والے مظالم سے آگاہی پھیلائی جائے، لیکن یہی کل داستان نہیں ہے۔ ایک داستان اور بھی ہے۔
حیرت انگیز طوفان الاقصیٰ آپریشن حماس کے دو سال کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے بعد شروع کیا گیا اور قطعی ہے کہ اس کے منصوبہ سازوں نے اچھی طرح اس کے تمام پہلوؤں، احتمالات، مد مقابل کے ممکنہ ردعمل سمیت اس کی بھاری قیمت کی ادائیگی کا لحاظ رکھا ہے۔ محمدضیف جوکہ اس آپریشن طوفان الاقصیٰ کے مرکزی منصوبہ ساز ہیں، وہ گشتہ چند سالوں سے اپنی تمام تر توجہ کو تین پہلوؤں پہ مرکوز رکھے ہوئے تھے: میزائل و راکٹ، ڈرونز، اور غزہ شہر میں زیر زمین سرنگوں کا جال بچھانا۔کیا یہ باتیں کسی ذرائع ابلاغ یا الیکٹرانک میڈیا پر بتائی جا رہی ہیں؟۔غزہ کے زیر زمین بنائی جانے والی میں سرنگوں کی کل مسافت 500 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ اذہان جھنجھوڑنے کے لئے بہتر ہے کہ یہ سمجھ لیں ایران کے دارلحکومت تہران شہر میں میٹرو ریل250 کلومیٹر طویل ہے جبکہ انگلستان جہاں سب سے پہلے سب وے متعارف ہوئیں، وہاں بھی ان کی مسافت صرف400 کلومیٹر ہے۔
غزہ کی یہ سرنگیں مکڑی کے جالے کی شکل میں بہت پیچیدہ ٹیکنیکوں کی حامل ہیں اور ان کی 3 بڑی کیٹیگریز ہیں: چھوٹی (مسلحہ دستوں کی رفت و آمد سے مخصوص)، درمیانی (میزائلوں کو جا بجا کرنے کے لئے) اور بڑی (بھاری بھرکم اور بڑے ٹرکوں اور گاڑیوں کی حمل و نقل کے لئے)۔
آپریشن طوفان الاقصیٰ کے پہلے دن سے آج تک روزانہ حماس کے دسیوں کمانڈوز غلاف غزہ اور صھیونیوں کے شہروں کے اندر صھیونی افواج سے نبرد آزما ہیں۔یہ شہادت طلب جنگجو اسرائیلی فوجی تنصیبات ڈھاتے ہوئے ان کے فوجیوں میں رعب و وحشت پیدا کرتے ہوئے اپنے آپریشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
10فیصد سے زائدصیہونی آباد کار بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں۔ایک رعب و وحشت پورے اسرائیل پہ چھائی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد مقبوضہ سرزمین کے رہائشی فرار ہونے کے درپے ہیں۔اسرائیل ابتدائی دنوں ہی سے مجبور ہے کہ ہوائی اور بحری جہازوں کو کرایہ پر حاصل کرے تاکہ ان لوگوں کو دیگر علاقوں میں منتقل کرپائے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ان دنوں اسرائیل میں IDPs کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنے کا موضوع بھی گرما گرم ہے۔ اب تک پانچ لاکھ سے زائد ایسے پناہ گزینوں کو بسایا جا چکا ہے۔ان IDPs کا ایک گروہ ایسے افریقی یہودیوں کا ہے جو ایتھوپیا اور سوڈان جیسے ممالک سے لاکر مقبوضہ سر زمینوں میں بسائے گئے تھے اور اب ان کی واپسی کے دروازے بند ہیں۔پانچ لاکھ سے زائد امریکی جن کے پاس دوہری شہریت ہے اور جو اسرائیل میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کی اکثریت مقبوضہ علاقوں سے نقل مکانی کرچکی ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جسے نیتن یاہو کی حکومت نے اعلان کیا ہے۔حماس نے تاحال کوئی آفیشل تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔ ان دنوں اسرائیلیوں کی بھاری بمباری کا ہدف اگلے محاذوں پہ ڈٹے ہوئے حماس کے مجاہدین کے حوصلوں کو توڑنا ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو اسرائیلی فوج کے غزہ میں متوقع زمینی حملوں کا مقابلہ کرنے لئے تیار کر رکھا ہے۔گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران زیادہ تر بمباری حماس کے رہنماؤں کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں پہ کی گئی ہے اور گذشتہ دور وز قبل بھی ایسے ہی واقعات رونما ہوئے ہیں۔
مزاحمتی فورسز اسرائیل کی دفاعی لائن عبور کرکے اور غزہ کی سرحدوں کے اس پار طوفان الاقصی کے ذریعے عبور، سیکیورٹی کا معمہ بن چکا ہے۔یہ دفاعی لائن جو 3 میٹر، 6 میٹر اور بعض جگہوں پہ 10 میٹر بلند دیواروں پہ مشتمل ہے اس پہ مستژاد خاردار تار بھی لگے تھے کہ جن پہ چھوٹے بڑے ریڈار اور درجہ حرارت کے سینسرز والے کیمرے بھی نصب ہیں، اور یہ سارا نظام ایسے خودکار فائرنگ سسٹم سے اٹیچ ہے جو ذرا سی ہل جل پہ گولیوں کا پورا برسٹ خالی کردیتا ہے۔الیکٹرانک سینسرز پہ مشتمل الارم، زیرزمین سرنگوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کھودے گئے ٹینک جن میں معمولی ارتعاش سے بھی فورا” باخبر ہوا جاسکتا ہے، زیر زمین بچھائے گئے سلاخوں کے جال، اور دلدلی زمین کہ کمترین وزن والے موجود کے نشان جس پہ منقش ہوجاتے ہیں، یہ ان دفاعی لائنوں میں سے بعض کا حال ہے، تاہم حماس زمین و ہوا و زیر زمین میں موجود ان تمام رکاوٹوں کو کیسے عبور کرگئی؟حماس نے اس سیمنٹ کی مضبوط دیوار میں زیر زمین 8سوراخ کیے اور صھیونیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
جیسا کہ غیرمتناسب (Asymmetric) اور گوریلا جنگوں کی منطق کلاسک جنگوں کی منطق سے مختلف ہوا کرتی ہے، گراؤنڈ میں جو سائیڈ بھی غیر متزلزل ارادہ کی مالک ہو، عوامی حمایت اس کی پشت پہ ہو، نیز جدت و خلاقیت (Creativity) سے بہرہ مند ہو، علاقے کی باریک معلومات رکھتی ہو،جنگ کا پلڑا اسی کے حق میں جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا و انگلستان دونوں ہی غزہ پر کسی بھی قسم کی زمینی جارحیت کے خلاف ہیں۔تھامس فریڈ مین نے چند روز قبل نیویورک ٹائمز میں اپنی یادداشتوں میں نیتن یاہو کو غزہ پہ زمینی حملے کے خلاف خبردار کیا ہے کہ یہ ایک بدترین فیصلہ ہوگا کیونکہ کہتے ہیں کہ غصے میں تو ڈرائیونگ بھی نہیں کرنا چاہئے۔
شاید اسرائیلیوں کے لئے طوفان الاقصیٰ اصلی، جنگ بندی کے اعلان کے بعد نمایاں ہوگا۔خصوصاً نتانیاہو کے لئے کہ جس نے خود اپنی آنکھوں سے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ33 روزہ جنگ کے بعد اولمرٹ حکومت کے سقوط اور اولمرٹ کو جیل جاتے دیکھا ہوا ہے۔ ان دنوں یہ سوال بھی شدت کے ساتھ افکار عمومی اور عالمی سطح کے ذرائع ابلاغ میں اٹھ رہا ہے کہ کیا وقت آگیا ہے کہ اسرائیل بخارات میں تبدیل ہوکر محو ہونے جارہا ہے؟!

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan