اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے زور دے کر کہا ہے کہ نئی “اسرائیلی” قابض حکومت کی ترجیحات کے مقابلے میں مزاحمت اور اتحاد ہمارے لوگوں کی ترجیح ہے۔
ہنیہ نے بدھ کی شام کو ایک پریس بیان میں کہا کہ “ہر ایک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قابض ریاست کے لیڈر اور حکومتوں کے سیاسی اور فکری رجحانات، خاص طور پر موجودہ حکومت ساری صورتحال کو گرما گرم کر دیتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یہودی بستیوں کا مقابلہ مزاحمت کا دائرہ وسیع کرکے کیا جائے گا، اور فلسطینیوں کی سرزمین سے آباد کاروں اور قابض ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے دباؤ ڈالا جائے گا۔
ہنیہ نے خبردار کیا کہ ہمارےعوام خاص طور پر القدس اور مغربی کنارے میں تمام خطوں کی حمایت سے، مزاحمت کی اختراعات اور طریقوں کو جاری رکھیں گے اور دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ہمارے لوگ تمام سرحدوں کو عبور کریں گے اور قابض اور اس کے آباد کاروں کو حیران کر دیں گے تاکہ وہ ہماری سرزمین اور القدس چھوڑ دیں۔
بنجمن نیتن یاہو کی حکومت آج جمعرات صبح 11 بجے حلف اٹھائے گی۔
نیتن یاہو نے اپنے دائیں بازو کے کیمپ “مذہبی صیہونیت”، “یہودی پاورپارٹی “، “نوم”، “شاس” اور “متحدہ تورہ یہودیت” کی جماعتوں کے ساتھ ان میں وزارتی محکموں کی تقسیم کے طریقہ کار اور اختیارات پر معاہدے کیے تھے۔
بدھ کو نیتن یاہو نے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے پروگرام کا خاکہ پیش کیا۔
نیتن یاہو کی لیکود پارٹی جس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ الٹرا آرتھوڈوکس اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ گزشتہ یکم نومبر کو کنیسٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی نے ایک بیان میں کہا: “یہودی عوام کا پوری سرزمین پر ایک خصوصی اور ناقابل تنسیخ حق ہے اور یہ حکومت اور الجلیل، نقب، گولان اورمغربی کنارے میں پوری زمین پر بستیوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی ہوگی”۔
بیان میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے اس مطالبے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ فوجی دستوں کو فلسطینیوں کے خلاف مغربی کنارے میں طاقت کے استعمال کے فریم ورک میں کارروائی کا ایک بڑا مارجن دیا جائے۔