Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

علامہ قرضاوی کی رحلت، فلسطین کی حامی ایک توانا آواز خاموش ہو گئی

معروف عالمی دینی شخصیت ڈاکٹر یوسف قرضاوی  کی  دنیا  کی رخصتی  کی خبر سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے غم  کی لہر دوڑ گئی۔  اس واقعہ سے فلسطین بھی تمام میدانوں میں حمایت کرنے والے سب سے بڑے  دفاعی ستون سے محروم ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی کے الفاظ، کتابیں اور خطبات  اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ فلسطین کی حمایت میں ہر محاذ پر ڈٹے رہے تھیں۔

فلسطین کی ان کے نظر میں کیا اہمیت تھی اس کا اندازہ انہیں کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اپنی ذاتی ویب سائٹ پر ایک سوانح حیات میں انہوں نے کہا “فلسطین کا مسئلہ قدیم زمانے  سے وہ پہلا مسئلہ  تھا جس نے میرے دل اور اوردماغ پر قبضہ کرلیا تھا۔ ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ نے مسئلہ فلسطین کیلئے ڈاکٹر قرضاوی کی خدمات  پر نظر ڈالی۔   اس حوالے سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی 1940 میں طنطا  میں ایک دینی ادارے میں داخلے سے لیکر بعد کے سالوں  میں ہر سال 2 نومبر کو اپنے طلبہ کے ساتھ  بالفور ڈیکلیریشن کے خلاف مارچ کرتے تھے۔ یہ اعلان برطانوی  وزیر خارجہ بالفور نے کیا تھا اور اس میں یہودیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ برطانیہ یہودیوں کو فلسطین میں بسنے کی  اجازت دے گا۔

ڈاکٹر قرضاوی  کہتے ہیں  کہ جب میں پرائمری سکول کے تیسرے سال میں تھا تو فلسطین کی حمایت اور صہیونیت کے زوال کیلئے تقریریں کرنے، نظمیں گانے اورنعرے لگانے شروع  کردئیے تھے۔  میں نے پرجوش مظاہروں کی قیادت کرنا بھی شروع کردی تھی۔

فلسطینی مقصد کیلئے فنڈ ریزنگ

فلسطین کے کاز کی خدمت کے لیے طالب علمی میں ہی خود  کو وقف کردینے والے  یوسف قرضاوی کا نیا دور اس وقت شروع ہوا جب وہ مصری کی اسلامی تنظیم  الاخوان میں شامل ہوگئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح الاخوان  فلسطینیوں کو مسلح کرنے کے لیے ہر طرف سے ہتھیار جمع کرتی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ان ہتھیاروں کی خریداری کے لیے رقم درکار تھی، اس لیے ہم مصر کے شہروں اور دیہاتوں میں جا کر فلسطین کی امداد کے لیے چندہ جمع کرتے تھے۔ اس کے بعد الاخوان نے فلسطین میں جہاد کے خواہاں افراد کے لیے رضاکارانہ خدمات کا دروازہ کھول دیا اور ہزاروں افراد نے اس پکار پر لبیک کہا ۔ تاہم اس وقت امام حسن البنا نے سکینڈری سکول کے طلبہ کو رضاکارانہ طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

وہ  مزید کہتے ہیں  کہ اس کے باوجود ہم نے فلسطین کے مقصد کے ساتھ اپنی وفاداری کو برقرار رکھا اور پیچھے نہیں ہٹے۔ فلسطین  کا دفاع ہم اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے متعلق ہمارا نظریہ یہ ہے یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ بات یہ نہیں ہے کہ فلسطین ہمارے بھائیوں کا مسئلہ ہے اور ہم اپنے بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ تعبیر درست نہیں۔ درست اسلامی نظریہ یہ ہے کہ فلسطین ہمارا مسئلہ ہے۔  نہ جانے کتنے لوگوں نے مجھے اس موقف سے منہ موڑنے کی کوشش کی اور کہا کہ مسئلہ کے مالکان اتنا خیال نہیں رکھتے جتنا تم اس مسئلہ کا خیال رکھتے ہو تو میں نے جواب میں کہتا ہوں کہ تم سے غلطی  ہوئی، ہم اس مسئلہ کے مالک ہیں۔ یہ کیس  ہمارے لسے اجنبی نہیں  ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم کسی دوسرے کے معاملہ میں مداخلت کر رہے ہیں۔

کئی سالوں سے فلسطینی کاز کے متعلق ڈاکٹر یوسف قرضاوی کا موقف جس میں فلسطین میں جہاد اور مزاحمت کی حمایت اوریہودی آباد کاری کے منصوبوں کو مسترد کیا گیا تھا دشمنوں کیلئے پریشان کن بناہوا تھا۔ اس کی  قیمت بھی وہ چکاتے رہے اور اسلامی تحریک  کے دشمن اسی بناپر انہیں غیر منصفانہ حملوں کا نشانہ بناتے تھے۔

ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے حماس رہنما خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی کاز کو خاص طور پر شیخ القرضاوی کی زندگی میں بہت زیادہ توجہ حاصل ہوئی ۔  یہ ان کی زندگی کا اوائل ہی تھا جب انہوں نے اپنی جوانی میں فلسطین کا دورہ کیا۔ پھر وہ بڑھاپے میں غزہ گئے اور اپنے علم، حیثیت اور وسیع تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے فلسطینی کاز کے لیے عرب اور اسلامی حمایت حاصل کرنے میں لگ گئے۔ انہوں نے جہاد ، مزاحمت اور مجاہدین کی حمایت کی۔ انہوں نے القدس اور مسجد اقصیٰ کے دفاع پرزور دیا۔ انہوں نے فلسطینی کاز کے حصول کیلئے ہونے والی بہت سی کوششوں اور اداروں کی صدارت کی۔

غزہ کا دورہ

مئی 2013 میں ڈاکٹر یوسف قرضاوی  14 ملکوں کے تقریبا 50 مسلم علما کے وفد کی سربراہی  میں رفح کراسنگ پہنچے۔ یہ 1958 کے بعد ان کا پہلا دورہ غزہ تھا۔ ایک پریس بیان میں حماس نے اس دورے کو “تاریخی” قرار دیا تھا۔

یوسف قرضاوی نے رفح کراسنگ پر ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ ہم ایک نئے موسم اور قوم کے لیے ایک نئے دور میں داخل  ہوگئے ہیں ۔ اب ہم غزہ میں ہیں، جس کا میں نے 1958 کے بعد سے دورہ نہیں کیا۔ ہم اپنے اس عہد کی تجدید کرنا چاہتے  کہ ہم  فلسطین کے تمام فرزندوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فلسطین کی آزادی ہم سب کا عہد ہے۔ ہم پورے فلسطین کی آزادی کے لئے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا عزم  ہے کہ خدا کی خاطر مرنا اور فلسطین کے لیے جینا ہے۔ ہم ان معزز لوگوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ مسجد اقصی اور فلسطین کیلئے قربان کردیا ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جیتیں گے۔ کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ لوگ جیتیں گے اور ان ظالموں کو نکال باہر کریں گے جنہوں نے مصر اور تیونس میں ان پر حکومت کی تھی۔ کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ  شام جیت جائے گا۔ اسی طرح جیت اسلام کی ہوگی۔

قرضاوی  کا مضبوط موقف

ڈاکٹر یوسف قرضاوی کو فلسطین میں مزاحمت کی حمایت، اسرائیل کے ساتھ تصفیہ کو جرم قرار دینے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔   فلسطین  سے متعلق مضبوط اور ٹھوس موقف ہی ان کی پہچان تھا۔ غزہ کی جنگوں، القدس اور مغربی کنارے پر حملوں کے دوران وہ حق کی آواز  بن گئے تھے۔ یوسف قرضاوی حق کی آواز اور مسئلہ فلسطین کے چیمپئن بن کر سامنے آئے تھے۔ ان کی حمایت فلسطینوں کو متحرک کرنے کیلئے کافی ثابت ہوتی تھی۔

پیر 26 ستمبر 2022 کو انٹرنیشنل یونین  آف مسلم سکالرز کے صدر شیخ یوسف قرضانوی 96 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔

فلسطین معروف نظم ’’ واپسی کا ترانہ‘‘

شیخ یوسف قرضاوی نے فلسطین کے لیے بہت سی نظمیں کہیں جن میں “واپسی کا ترانہ” بھی شامل ہے۔ ان کی اس معروف نظم  کا مفہوم کچھ یہ بنتا ہے۔

میں واپس آ رہا ہوں، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں واپس آ رہا ہوں، حق میری گواہی دے رہا ہےاور وہ بہترین گواہی دینے والا ہے۔

میرے ساتھ میزائل اور لافانی کتاب ہے۔ ایمان میری رہنمائی کرتا ہے۔ لہو کی زبان میری زبان ہے اور یہ خون کے سوا کچھ نہیں۔ مجھے کہنے کا فن آتا ہے۔ میں نے اپنا منہ بند کر رکھا ہے۔ میں نے مشن گن کو بولنے کیلئے چھوڑ دیا   ہے کہ وہ دشمن کے گھونسلوں کو جہنم میں بدل ڈالے۔

حماس اور ہنیہ کی تعزیت

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے اپنے تعزیتی بیان میں فلسطین، القدس اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں ان کے موقف کو یاد کیا۔ شیخ قرضانوی نے ہر مرحلہ پر  فلسطینیوں  کے حقوق کی حمایت کی۔ انہوں نے اپنے فتاویٰ، لٹریچر، کتابوں اور موقف سے واضح کیا کہ علما کا کردار قوم کی رہنمائی کرنا  اور فلسطین اور اس کی مزاحمت کے حوالے سے اپنی جائز ذمہ داریاں ادا کرنا ہونا چاہیے۔ انہوں نے ایک  خطیب اور امام کی حیثیت سے فلسطین کا دورہ کیا۔ انہوں نے اپنے بڑھاپے میں  رفح کراسنگ آکر غزہ کے محاصرے کو توڑا۔

اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس نے بھی ڈاکٹر قرضاوی کی وفات پر تعزیت کی اور کہا  مرحوم امام نے اپنی فکر، جہاد، قربانی، پیشہ اور تعلیم سے بھرپور زندگی کے دوران فلسطینی کاز کے دفاع کا پرچم بلند کئے رکھا۔   یہ ایسی فلسطینی کاز تھی جس کا مرکز القدس اور مسجد اقصی تھی۔ انہوں نے مختلف فورمز، اجلاسوں، کانفرنسوں، دنیا کے تمام حصوں میں جاکر فلسطینی کاز کا دفاع کیا۔ انہوں نے اپنے قلم اور زبان سے قوم کی توانائیوں کومتحرک اور جمع کرنے میں کردار ادا کیا۔  ان کا فصاحت اور بلاغت سے لبریز کلام فلسطینی عوام کی استقامت  میں اضافہ کرتا تھا۔ انہوں نے اپنے وقت، پیسے اور فکر سے فلسطینی مزاحمت کی حمایت جاری رکھی۔

شیخ قرضانوی کی سوانح عمری سے اہم واقعات اور نمایاں کارناموں کو  الجزیرہ نیٹ نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے۔

پیدائش اور ابتدائی تعلیم

یوسف قرضاوی 9 ستمبر 1926 کو محلہ الکبری، غربیہ گورنری ، مصر کے مرکز صف تراب کے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ دو سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا، ان کے چچا نے ان کی پرورش کی۔ انہوں نے قرآن حفظ کیا اور دس سال سے کم عمر میں  ہی تجوید  بھی سیکھ لی۔

مطالعہ اور تربیت

انہوں نے جامعہ الازہر میں داخلہ لیا ، اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی، پھر جامعہ الازہر کی فیکلٹی آف فنڈامینٹلز آف ریلیجن میں داخل ہوئے جہاں سے انہوں نے 1953 میں اعلیٰ سند حاصل کی، ایک سال بعد اس نے جامعہ کے کلیہ عربی زبان سے تدریس  کا اجازت نامہ حاصل کرلیا۔

1958 میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف ہائر عرب سٹڈیز ان لینگویج اینڈ لٹریچر سے ڈپلومہ حاصل کرلیا ، 1960 میں فیکلٹی آف فنڈامینٹلز آف ریلیجن سے قرآن و سنت سائنسز کے شعبہ میں ماسٹرز کے مساوی تعلیم حاصل کی۔  1973 میں اسی کالج سے فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ پی ایچ ڈی  میں ان کے مقالے کا موضوع  “زکوٰۃ اور سماجی مسائل کے حل پر اس کے اثرات”۔ تھا۔

فکری رجحان

وہ تحریک الاخوان المسلمون کی ممتاز سائنسی اور فکری شخصیات میں سے ایک ہیں۔ وہ اسلامی اعتدال پسندی کے سب سے نمایاں ایسے حامیوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو سلفیت اور تجدید کو یکجا کرتے ہیں۔ وہ فکر اور تحریک کو ملاتے ہیں۔ سنت کی فقہ پر توجہ دیتے ہیں۔  مقاصد شریعہ کی فقہ اور فقہ کی ترجیحات پر ان کا عبور تھا، انہوں نے اسلام کے استحکام کے زمانے اور بعد کے زمانے کے درمیان توازن قائم کیا۔  وہ تمام پرانی مفید چیزوں کو  مانتے تھے اور ہر نئی نیکی کا خیر مقدم کرتے تھے۔

ان کی بعض فقہی آراء اور فتاویٰ کو بعض علما نے قبول نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے خیال میں یہ رائے جدید دور کے دباؤ کے مطابق قائم کی گئی ہے اور قانونی شواہد کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ فقہ کے اصولوں اور مقاصد شریعہ میں واضح احکام کی بنیاد پر فقہی آراء تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

افعال اور ذمہ داریاں

ڈاکٹر قرضاوی نے مصر میں وزارت اوقاف سے وابستہ اماموں کے انسٹی ٹیوٹ کے نگران کے طور پر کام کیا، پھر الازہر الشریف میں اسلامی ثقافت کی جنرل ایڈمنسٹریشن کی اشاعتوں کی نگرانی کی۔ دعوہ  و الارشاد کے آفس سے بھی وابستہ ہوئے۔ 1961 میں قطر کے ثانوی مذہبی انسٹی ٹیوٹ کے ڈین کے طور پر منتخب کئے گئے۔

1973 میں انہوں نے قطر یونیورسٹی کے کالجز آف بوائز اینڈ گرلز میں اسلامیات کا شعبہ قائم کیا اور 1977 میں اسی یونیورسٹی میں کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک اسٹڈیز قائم کیا اور اس کے قیام سے لے کر 1989 اور 1990  میں اس کے ختم ہونے تک اس کے ڈین رہے۔

انہوں نے قطر کی شہریت بھی حاصل کرلی۔ قطر نے انہیں 1990  اور 1991 کے تعلیمی سال کے دوران الجزائر بھیجا تاکہ وہ اپنی یونیورسٹی اور اس کے اعلیٰ اسلامی اداروں کی سائنسی کونسلوں کی سربراہی کر سکیں۔ پھر وہ سنّت اور سیرت ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر کے طور پر قطر یونیورسٹی میں واپس آگئے۔

انہوں نے قطر میں البلاغ کلچرل سوسائٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سربراہی کی۔ اس سوسائٹی نے  23 مارچ 2010 تک “اسلام آن لائن” نیٹ ورک کو مالی امداد فراہم کی۔ وہ 2004 سے 2018 تک بین الاقوامی فیڈریشن آف مسلم سکالرز کے سربراہ رہے۔

ڈاکٹر قرضاوی کئی عرب، اسلامی اور بین الاقوامی علمی اور وکالت کے اداروں کے رکن بھی تھے۔ ان میں مکہ مکرمہ میں مسلم ورلڈ لیگ کی فقہ کونسل۔ خرطوم میں اسلامک کال آرگنائزیشن اور آکسفورڈ میں سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز شامل ہیں۔

دعوتی تجربہ

شیخ قرضاوی نے مصر میں الاخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی ۔ 1949 میں اس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد 1954  کے انقلاب کے بعد جب الاخوان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو انہیں پھر گرفتار کرلیا گیا۔

ان کی کتابیں، فکری آراء اور فقہی فتوے 1960 کی دہائی سے اسلامی بیداری کے بیٹوں کے لیے ایک قابل اعتماد حوالہ اور ایک بھرپور ذریعہ رہے ہیں۔ ان کے افکار نے طلبہ، محققین اور علمائے کرام کی پوری نسلوں  پر اثرات مرتب کئے ہیں۔

کئی دہائیوں تک انہوں نے سائنسی، دعوتی، خیراتی، اقتصادی اور میڈیا کے شعبوں میں بہت سے اسلامی اداروں اور اداروں کے قیام میں حصہ لیا۔

شیخ قرضانوی  کو “اسرائیل” کے اندر فلسطینی مزاحمت کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ قرضاوی نے اسرائیل کے اندر کی جانے والی کارروائیوں  میں موت کو شہادت قرار دیا تھا۔

فروری 2011 میں  وہ 31 سال کی ممانعت کے بعد پہلی بار مصر میں امامت اور خطبہ کے لیے واپس آئے۔  انہوں نے صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے چند دن بعد وسطی قاہرہ کے تحریر سکوائر میں جمعہ کا خطبہ دیا۔

شیخ قرضاوی نے تیونس، مصر، لیبیا، یمن اور شام میں انقلابات کو “اپنے لوگوں کی روش بدلنے کے لیے ایک الہی تحفہ” قرار دیا۔ انہوں نے حکمرانوں کی جانب سے پرامن انقلابیوں کا گولیوں اور قتل سے مقابلے کرنے کی شدید مذمت کی۔

انہیں 2008 میں دنیا کی بیس بااثر دانشور شخصیات کی فہرست میں تیسرے نمبر پر منتخب کیا گیا تھا ۔ پہلے نمبر پر ترک مبلغ فتح اللہ گولن تھے ، دوسرے نمبر پر بنگلہ دیشی ماہر معاشیات اور 2006 کے نوبل انعام یافتہ محمد یونس تھے۔ یہ سروے امریکی میگزین “فارن پالیسی” اور “برٹش پراسپیکٹ” کے ذریعہ کیا گیا۔

2009 میں اردن کے رائل سینٹر فار اسلامک سٹریٹجک سٹڈیز کی طرف سے جاری کردہ کتاب میں پچاس بااثر مسلم شخصیات میں قرضاوی کو 38 ویں نمبر پر رکھا گیا۔

جنوری 2012 میں قطر فاؤنڈیشن فار ایجوکیشن  کے شعبہ سائنس اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے کالج آف اسلامک سٹڈیز کے ” القرضاوی سنٹر فار اسلامک موڈریشن اینڈ رینیوول” نے “شیخ یوسف القرضاوی انٹرنیشنل پرائز فار اسلامک سٹڈیز” کے اجراء کا اعلان کیا۔ اس میں ایک ایوارڈ سینئر سکالرز اور  دوسرا نوجوان سکالرز کے لئے رکھا گیا ہے۔

اس ایوارڈ کا مقصد ایسی سائنسی شخصیات کو اعزاز دینا ہے جو عصری اسلامی ثقافت کی تحریک میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور فکری چیلنجوں کا سامنا کرنے اور مسلم مسائل کے حل کی تلاش میں  رہتے ہیں۔

16 مئی 2015 کو ایک عدالتی حکم جاری کیا گیا کہ شیخ قرضاوی اور معزول صدر محمد مرسی سمیت تقریباً ایک سو دیگر افراد کے کاغذات مصر کے مفتی کو بھیجے جائیں۔ اس کیس کو ’’ وادی نظرون کی جیل سے فرار‘‘ کا کیس کہا جاتا ہے۔ شیخ قرضاوی نے اس کیس  کے متعلق کہا تھا کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔

معزول صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف اکسانے  کے الزام  کے جواب  میں قرضاوی نے الجزیرہ کو بتایا  تھا کہ لوگوں کو ناانصافی اور جھوٹ کے خلاف بغاوت کرنے کا حق ہے۔

ستمبر 2013 میں مصری پبلک پراسیکیوٹر ہشام برکات نے شیخ قرضاوی کا نام ان افراد کی فہرست  میں شامل کردیا تھا جن پر یہ الزام تھا کہ وہ مصری فوجیوں کو قتل کرنے اور شیخ الازھر پر حملہ کیلئے اکسا رہے ہیں۔

تصانیف

شیخ قرضاوی نے بڑی تعداد میں کتابیں لکھیں۔ ان کی لکھی کتابوں کی تعداد لگ بھگ 170 ہے۔ ان کتابوں میں قرآن، سنت، فقہ، عقیدہ، وکالت، فکر، تصوف، اور ادب کے علوم سمیت متعدد شعبوں  پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان کی چند مشہور کتابوں میں درج ذیل شامل ہیں۔

• اسلام میں حلال اور حرام۔

• اسلامی شریعت میں اجتہاد۔

• فقہ زکوٰۃ۔

• جہاد کی فقہ۔

• اسلام اور سیکولرازم آمنے سامنے۔

• ایک سائنسدان اور ایک ظالم (تاریخی ڈرامہ)۔

ایوارڈز اور اعزازات

شیخ القرضاوی کو بہت سے اعزازات ملے ہیں جن میں نمایاں  درج ذیل ہیں۔

• اسلامی اقتصادیات میں اسلامی ترقیاتی بینک کا ایوارڈ ۔ 1990 ۔

• کنگ  فیصل انٹرنیشنل پرائز ۔ 1994 ۔

• ملائیشیا میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر کی طرف سے ممتاز تعلیمی ایوارڈ۔ 1996۔

• اسلامی فقہ میں سلطان حسنال بولکیہ ایوارڈ ۔ 1997 ۔

• ثقافتی اور سائنسی کامیابی کے لیے سلطان ال اویس ایوارڈ ۔ 1999۔

• بہترین قرآن اسلامی شخصیت کا دبئی ایوارڈ ۔  1421۔

• اسلامک اسٹڈیز کے لیے قطر کا ریاستی تعریفی ایوارڈ ۔ 2008 ۔

• حکومت ملائیشیا پیغمبر کی ہجرت کا ایوارڈ۔ 1431  ۔

• انہیں فرسٹ ڈگری کا آزادی کا تمغہ ۔ 2010 ۔

بیماری اور موت

شیخ یوسف  قرضاوی پیر 26 ستمبر 2022 کو دوپہر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں انتقال کر گئے۔ طویل عرصے تک ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد ان کا انتقال ہوا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan