مقبوضہ بیت المقدس (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن) اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے مقبوضہ بیت المقدس اور اسرائیلی علاقوں میں بسنے والے سیکڑوں اسرائیلی عرب باشندوں کو “دہشت گردی کے مرتکب” ہونے کی پاداش میں فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام علاقوں میں بھیجا جا سکتا ہے۔
جمعرات کو اسرائیلی آرمی ریڈیو نے خبر نشر کی جس میں کہا گیا کہ اسرائیل سینکڑوں فلسطینیوں کو سنہ 1948ء کی جنگ میں اسرائیل کا حصہ بننے والے علاقوں اور یروشلم سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے الزام میں مغربی کنارے میں بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے”۔
ریڈیو نے وضاحت کی کہ یہ پیش رفت اس اسرائیلی رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہے جس میں اسرائیلی کنیسٹ میں اس حوالے سے قانون سازی کا انکشاف کیا گیا ہے۔کنیسٹ میں پیش کردہ بل میں “شہریت کے قانون” میں ترمیم کی سفارش کی گئی ہے
اسرائیل میں “شہریت کے قانون” سے مراد مغربی کنارے یا غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں کو ان کی بیویوں کے ساتھ دوبارہ ملانے سے محروم کرنا ہے جو اسرائیلی شہریت رکھتے ہیں۔
تل ابیب نے 2003ء میں پہلی بار “اسرائیل میں شہریت اور داخلے” کے قانون کا اعلان دوسری فلسطینی انتفاضہ کے دوران کیا تھا جب اسرائیل میں عوامی مقامات کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا۔
یہ حکم ابتدائی طور پر ایک ہنگامی قانون کے طور پر جاری کیا گیا تھا اور اسرائیل کے قانون میں شہریت اور داخلہ کو “عارضی متن” کہا گیا تھا، لیکن اس کے بعد سے ہر سال اس میں وقفے وقفے سے توسیع کی جاتی رہی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ “یہ قانون اس کی اشاعت کی تاریخ سے ایک سال کے اختتام تک نافذ رہے گا، لیکن حکومت کو حق حاصل ہے، کنیسیٹ کی منظوری کے ساتھ وقتاً فوقتاً، اس مدت کے لیے اس کی میعاد میں توسیع کرے گی مگر توسیع کی مدت ایک سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔
ابتدائی طور پر قانون میں کہا گیا تھا کہ “مغربی کنارے یا غزہ کا شناختی کارڈ رکھنے والے کسی بھی شخص کو اسرائیل جانے اپنے شریک حیات سے ملنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن اس میں 2005ء میں ترمیم کی گئی تھی، جس میں 25 سال سے زیادہ عمر کی خواتین اور 35 سال سے زیادہ عمر کے مرودں کو اسرائیل میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی۔