مقبوضہ الجلیل – (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)اسرائیل کے ایک سابق وزیر نے اعتراف کیا ہے کہ “اسرائیل” 1948ء کےمقبوضہ شمالی فلسطین میں الجلیل شہر کو یہودیانے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الجلیل میں تمام یہودیوں کے منصوبوں کے باوجود اور تمام تر فتنوں اور مراعات کے باوجود آبادکاروں کو دی گئی سہولیات کے علی الرغم الجلیل شہر کی فلسطینی شناخت ختم نہیں کی جا سکی ہے۔
سابق اسرائیلی حکومت میں مواصلات کے وزیر یوز ہینڈل نے کہا کہ آج یہودی آباد کار الجلیل کے علاقے میں آبادی کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے جس تعداد کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ 15 فیصد ہے اور یہ بہت میری توقعات سے بھی زیادہ ہے۔
انہوں نے عبرانی اخبار اسرائیل ہیوم میں شائع ایک مضمون میں لکھا کہ الجلیل سے تقریباً 10 فیصد سالانہ، خاص طور پر حیفہ اور عکا کے علاقوں سے منفی یہودی ہجرت ہوتی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہودیوں کے رجحانات یہودیوں کی امیگریشن سے واضح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دائیں بازو کی حکومت کے وزراء کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، کیونکہ وہ قانونی اصلاحات کے لیے صبح اٹھتے ہیں اور رات کو سوتے ہیں۔ جب کہ “الجلیل کے امور” کے وزیر بہت سے لوگوں سے مکالمے میں مصروف ہیں اور وہ شہر میں یہودیوں کی تعداد میں اضافے کےلیے کوشاں ہیں۔
ہینڈل نے نشاندہی کی کہ پچھلے پانچ سال میں سیاسی عدم استحکام اور پانچ انتخابی مہمات اس حقیقت کی طرف لے گئین کیونکہ الجلیل کے معاملے پر تقریباً کوئی بات چیت نہیں ہوئی نہ حکومت میں اور نہ ہی کابینہ میں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بن گوریون (پہلے اسرائیلی وزیر اعظم) کا اسرائیلیوں کو مرکز سے الجلیل اورجزیرہ النقب (مقبوضہ فلسطین کے جنوب) سے ہٹا کر الجلیل کو یہودی بنانے کا وژن ناکام ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی کی وجہ سے آج وہاں موجود ہیں۔ مرکز میں زمین کے ذخائر نہیں اور رہائش کے حل تلاش کرنے کا کوئی موقع نہیں۔