مغربی کنارے میں فلسطین کی غیرآئینی حکومت کے سربراہ محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ واضح ایجنڈے کا تعین ہوتے ہی اسرائیل سے مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہیں، انہوں نے صہیونیوں کی جانب سے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات ہرگز نہیں بھاگیں گے۔ محمود عباس، جن کی مدت صدارت گزشتہ برس جنوری میں ختم ہو چکی ہے، نے عمان میں اردن کے کنگ عبداللہ ثانی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، ہم ایک سے زیادہ مرتبہ اسرائیل سے براہ راست مذاکرات کر چکے ہیں، ہم اب کس وجہ سے مذاکرات نہیں کریں گے؟ ہم راہ فرار اختیار نہیں کریں گے؟‘‘ عباس کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے ایک واضح اور متعین ایجنڈا طے ہونا چاہیے اور وہ 1967ء کی حدود پر فلسطینی ریاست کی حدود ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے اپنا موقف دو لفظوں میں بیان کر دیا ہے۔ 1967 کی حدود، اور یہودی آباد کاری کی روک تھام، ان شرائط کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ براہ راست نہ صرف ممکن بلکہ بہتر بھی ہیں‘‘ واضح رہے کہ فلسطینی غیر آئینی صدر کا یہ بیان اس موقع پر سامنے آیا ہے جب حال ہی میں اسرائیلی وزیر خارجہ اویگڈور لیبرمان نے ستمبر میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے اور یہ اشارہ کیا ہے کہ مستقبل میں بھی مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر مسلسل جاری رہے گی۔ لیبر مان نے یہ بیان مغربی کنارے کے ضلح نابلس میں فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی ایک یہودی بستی کے دورہ کے موقع پر دیا تھا۔