شامی صدر بشارالاسد اور ترک وزیرخارجہ احمد داٶد اوگلو نےغزہ میں اسرائیل کی چار سال سے مسلط معاشی ناکہ بندی فوری طور پر اٹھانے اور فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی فوج کے حملے کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے. دونوں راہنماٶں نے فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان بلاتاخیر مفاہمت کی ضرورت پر بھی زور دیا. واضح رہے کہ اکتیس مئی کو کھلے سمندر میں غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے آنے والے ترکی کے چھ امدادی جہازوں کے قافلے پر اسرائیلی فوج نے حـملہ کیا تھا، جس میں کم از کم نو ترک رضاکار شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے.عملے کے سیکڑوں افراد کو یرغمال بنانے کے بعد ہزاروں ٹن امدادی سامان لوٹ لیا تھا. شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترک وزیرخارجہ احمد داٶد اوگلو نے دمشق میں شامی صدر بشارالاسد سےصدارتی محل میں ملاقات کی. ملاقات میں فلسطین بالخصوص غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تفصیل سےبات چیت کی گئی. دونوں راہنماٶں نےفلسطینی دھڑوں بالخصوص حماس اور فتح کے درمیان اتحاد کی ضرورت پرزور دیا. ان کا کہنا تھا کہ “فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے تمام فلسطینی نمائندہ جماعتوں کا متحد ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر قومی حقوق کی جنگ نہ تو لڑی جا سکتی ہے اور نہ ہی جیتی جا سکتی ہے” بشارالاسد اور احمد داٶد اوگلو نے ڈیڑھ ماہ قبل ترکی کی جانب سے غزہ جانے والے امدادی جہازوں پر اسرائیلی حملے کو جارحانہ کارروائی قرار دیا. انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی جارحیت اور قذاقی کی شفاف تحقیقات کر کے حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے. اس موقع پر بشارالاسد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششیں اسرائیل کی فلسطین میں جاری ظالمانہ پالیسیوں کے باعث تعطل شکار ہیں جب تک اسرائیل اپنی دشمنانہ اور ظالمانہ روش ترک نہیں کرتا خطے میں امن قائم کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی. ترک وزیرخارجہ نے شامی صدر کے اس موقف کی تائید کی اور کہا خطے میں قیام امن کی راہ میں اصل رکاوٹ خود اسرائیل ہے.