Uncategorized
اسرائیلی ناکہ بندی
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ ناکہ بندی نرم کردے گا-
نرمی سے اس کی کیا مراد ہے، یہ اس نے واضح نہیں کیا- اور نہ ہی ابھی تک کوئی ایسا بیان دیا ہے کہ یہ نرمی کس تاریخ سے شروع کی جائے گی- بس اتنا بتایا ہے کہ وہ اس نرمی کے تحت شہری ضروریات کی فراہمی کی اجازت دے گا- گویا اس نے مان لیا کہ اس کی ناکہ بندی اسلحہ کی آمدروکنے کے لئے نہیں تھی، وہ کھانے پینے کی اشیاء دوائیں اور اسی قسم کی دوسری لازمی چیزیں بھی غزہ کی پٹی میں نہیں جانے دے رہا تھا- جہاں 15 لاکھ کی آبادی کئی برس سے ان چیزوں کو ترس رہی ہے- دنیا میں کسی کو علم ہی نہیں کہ15 لاکھ انسان کیسی زندگی گزاررہے ہیں- غزہ کیا ہے- عالمی بے حسی کے جنگل میں بنا ہوا ایک کیمپ جہاں روٹی قسمت سے ملتی ہے، بجلی کم یاب، پانی نایاب اور موت کا سائبان ہر وقت چھایا ہوا! جہاں لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ وہ انسان ہیں، جہاں سہمے ہوئے بچے کھبی ہنستے نہیں دیکھے گئے- یہ ترقی یافتہ دنیا ہے جہاں ہر طرف انسانی حقوق کا شور ہے- امریکا اس دنیا کا واحد تھانیدار ہے اور اس کا دعوی ہے کہ کہیں بھی انسانی حقوق پامال ہوں، وہ تڑپ جاتا ہے- مثلاً کوئی فلسطینی کسی اسرائیلی پر پتھر دے مارے تویہ پتھر امریکا کے دل پر لگتا ہے- لیکن اسرائیل کی فوج سیکڑوں فلسطینیوں کو گولیوں سے چھلنی کردے تو امریکا یوں ظاہر کرتا ہے جیسے اس کی نظر کمزور ہے، کچھ نظر نہیں آرہا، کان بھی بہرے ہیں، کچھ سنائی نہیں دیتا، ہونٹوں پر صہیونی تالا لگا ہے، بولنے کے لئے کھل ہی نہیں سکتے اور دنیا نے تاریخ کے اس اپنے مہذب ترین دور میں فلسطین اور بالخصوص غزہ کو یوں بھلا دیا ہے جیسے غزہ دنیا کے نقشے پر ہے ہی نہیں-
ترکی نے فلوٹیلا نامی امدادی جہاز بھیج کر بے حسی کے اس تالاب میں جو پتھر چلایا، اس کی وجہ سے غیر متوقع لہریں پیدا ہوئیں اور دنیا کو اچانک علم ہوا کہ اہل غزہ کس عرصہ کرب وبلا سے گزررہے ہیں- اسی پتھر کا ارتعاش تھا جو تقریباً ہر یورپی ملک کے دارالحکومت میں سنا گیا- بڑے بڑے مظاہروں نے اسرائیل کو کچھ کرنے پر تو نہیں لیکن اتنا کہنے پر ضرور مجبور کردیا کہ وہ نرمی دکھانے کے لئے تیار ہے- اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کن وجوہات پر کی اور ناکہ بندی کی تفصیل کیا ہے، اسے معلوم کرکے آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ اتنی بڑی ستم رانی پر دنیا خاموش کیونکر رہی اور اقوام متحدہ کیوں سوئی رہی (وہ اب بھی سورہی ہے-)
ناکہ بندی کا بنیادی نکتہ اہل غزہ کو اسلحہ کی سپلائی روکنا تھا- اسرائیل نے امریکا میں اس قسم کا تاثر جما رکھا ہے جیسے غزہ میں دور مار تک کرنے والی توپیں، طیارے گرانے والے میزائل، سمندری جہاز اڑانے والے تارپیڈو اور یہودی شہروں کو نشانہ بنانے والے میزائل بھیجے جارہے ہیں، جس سے اس معصوم اور مظلوم، بے زبان یہودی ریاست کی سلامتی شدید خطرے میں ہے حالانکہ آج تک ثابت نہیں ہوسکا کہ غزہ کو کسی ملک نے ذرا بھی اسلحہ دیا ہو-
غزہ میں دو ہی قسم کا اسلحہ ہے- ایک بندوقیں جو ناقص ہیں، اسرائیلی پولیس اور فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اور دوسرے وہ چھوٹے چھوٹے میزائل جو غزہ والوں نے خود بنائے ہیں- زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لبنان کی حزب اللہ نے کچھ بندوقیں غزہ والوں کو دے دی ہوں حالانکہ یہ بہت مشکل ہے- غزہ چاروں طرف محصور ہے- اس کی واحد بین الاقوامی سرحد مصر سے ملتی ہے- چند کلومیٹر لمبی یہ سرحد مصر نے بند کررکھی ہے اور اتنی مختصر سرحد پر اتنے کڑے اور ظالمانہ انتظامات ہیں کہ کوئی رینگنے والا جانور بھی مصری فوج کی نظر سے نہیں بچ سکتا-
دو طرف اسرائیل کی سرحد ہے اور تیسری طرف چھوٹا سا ساحل جو اسرائیل کے کنٹرول میں ہے- لبنان اسرائیل سے پرے شمال میں ہے، وہاں سے اسلحہ کیسے غزہ آسکتا ہے- اسرائیل نے کبھی نہیں بتایا لیکن اتنی سخت ناکہ بندی سرحدوں کو عبور کرکے کوئی تنظیم یا فرد اہل فلسطین کو اسلحہ پہنچا رہا ہے تو وہ کوئی زمانہ قبل از تاریخ کا جادو گر ہی ہوسکتا ہے- اس موہوم الزام بلکہ مفروضے کی بنیاد پر 15 لاکھ غزہ والوں کو اسرائیل گلاگھونٹ کرمار رہا ہے اور دنیا خاموش ہے- حقیقت یہ ہے کہ اہل غزہ کو اسلحے کی کھیپ نہیں، قسطوں میں موت مل رہی ہے-
امریکی عہدیداروں سے جب بھی پوچھا جائے کہ غزہ کی ناکہ بندی کیوں نہیں ختم کروائی جاتی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے، یہ اسرائیل کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے- وہ یہ نہیں بتاتے کہ سیکورٹی کے مسئلہ کاخوراک بند کرنے سے کیا تعلق ہے- غزہ کی پوری آبادی کے لئے اسرائیل نے ہفتے میں 171ٹرک سامان لانے کی اجازت دے رکھی ہے- حالانکہ زندہ رہنے کے لئے اہل غزہ کو ہر ہفتے ایسے کم از کم 400ٹرکوں کی ضرورت ہے- اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ اہل غزہ کی 10 فیصد آبادی انتہائی فاقہ کشی کے مرحلے سے گزر رہی ہے- پیٹ بھر کر کھانے والے برائے نام ہیں اور جو بھی غذا مل رہی ہے، اس کی ورائٹی بہت محدود ہے-
غزہ پر کئی دہائیوں سے اسرائیل کا کنٹرول ہے اور حماس بھی یہاں طویل عرصے سے موجود ہے لیکن اسرائیل نے یہ ناکہ بندی صرف اس وقت شروع کی جب غزہ کے الیکشن حماس نے جیت لئے- جمہوریت کے دعویدار امریکا نے اسرائیل سے یک زبان ہوکر یہ انتخابات مسترد کردیے- الجزائر میں ایسے ہی انتخابات امریکی حکم پر وہاں کی فوج نے ٹینکوں تلے کچل ڈالے تھے، یہاں پر محاصرہ کرکے ان نتائج کا گلاگھونٹ دیا گیا- الیکشن کے کچھ ہی دنوں بعد اسرائیل نے غزہ کی درآمدات پر ایک دو نہیں، پانچ یا سات نہیں، پورے 75فیصد کا کٹ لگا دیا جس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی-
اسی وقت ہی ’’اسلحے‘‘ کی آمد کی بہانہ سازی کی گئی یعنی ناکہ بندی کا مقصد اسلحے کی آمد کو روکنا بتایا گیا- لیکن ہر قسم کی درآمدات پر 75فیصد کٹ کا کیا مطلب تھا- جو اشیاء غزہ نہیں آسکتی تھیں ان کی فہرست میں چاکلیٹ، جام حتی کہ دھنیا اور سمندر سوکھ بھی شامل تھی- خشک پھل، فرنچ فرائی، کپڑے اور نوٹ بکس بھی ممنوع قرار دے دی گئیں- گویا یہ سب چیزیں اگر سلحہ نہیں تھیں تو بھی اسلحہ سازی میں کام ضرور آسکتی تھیں-
اس سے بھی عجیب بات غزہ کے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ پر اسرائیل کا حملہ تھا- مفروضہ اسلحہ تو باہر سے آرہا تھا، پاور پلانٹ میں کیا ایٹم بم بن رہا تھا بہر حال پلانٹ حملہ سے تباہ ہوگیا اور اہل غزہ نے اس کی مرمت کرنا چاہی تو مرمت کے لئے درکار پرزے درآمد کرنے پر بھی اسرائیل نے پابندی لگادی- چنانچہ پلانٹ کا احیا صرف محدود سطح تک ہی ممکن ہوسکا- نتیجہ یہ ہے کہ غزہ کی بیشتر آبادی ہر روز 12گھنٹے بجلی سے یکسر محروم رہتی ہے-
ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں دستیاب 95فیصد پانی انسانی صحت کے لئے خطرناک ہے- صاف پانی نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ پانی صاف کرنے (ڈی سال ینیشن) اور سیوریج سسٹم کو چلانے کے لئے بجلی نہیں ہے اور یہی نہیں، جو سیوریج سسٹم موجود ہے ، وہ ناکارہ ہوگیا ہے اور اس کی تعمیرومرمت کے لئے جن آلات کی ضرورت ہے، اسرائیل نے ان پر درآمد پر پابندی لگا رکھی ہے- چنانچہ سیوریج کا پانی ساحل کے قریب واقع میٹھے پانی کے ذخیرے میں ڈمپ ہورہا ہے- سوال یہ ہے کہ پانی صاف کرنے اور سیوریج چلانے کی مشینری اور آلات کا اسلحہ سے کیا تعلق ہے
اسرائیلی ناکہ بندی کے لازمی نتیجے کے طور پر غزہ کی مقامی صنعت مفلوج ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار اور صارفین بہت سی اشیائے صرف سے محروم ہوچکے ہیں- اسرائیل کا دفاعی ڈاکٹریہ لکتا ہے کہ فلسطینی جتنے زیادہ بھوکے ننگے ہوں گے، اسرائیل کی سلامتی اتنی ہی زیادہ محفوظ ہوجائے گی-
2008ء کی جنگ (اگر اسے جنگ کہا جاسکتا ہے کیونکہ دراصل یہ اسرائیل کا یکطرفہ حملہ تھا جس میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے جن میں شاید ایک تہائی بچے تھے جبکہ فلسطینیوں کی ’’جوابی جنگ‘‘ میں ایک یادو یہودی بھی مارے گئے) کے دوران غزہ میں صحت کے تمام مراکز تباہ ہوگئے- ان کی تعمیرنو کے لئے درکار مواد اور دواؤں کی درآمد پر بھی اسرائیل نے پابندی لگا رکھی ہے- شاید اس کے خیال میں دواؤں کی پیکنگ میں بارودی مواد درآمد کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے-
اسرائیل غزہ کو غذا، صحت اور پانی کی سہولیات سے جان بوجھ کر، ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت محروم رکھ رہاہے- وجہ صاف ظاہر ہے، دشمن جتنا بھوکا ہوگا، جتنا بیمار اور کمزور ہوگا، زندگی اس کے لئے جتنی بوجھ ہوگئی، اسرائیل کے لئے وہ اتنا ہی کم خطرناک ہوگا- کم خطرناک کیا، جو خود اپنی زندگی پر بوجھ ہو، وہ کسی اور کا دشمن کہاں سے ہوگا- ویسے بھی اسرائیل کی یہ خواہش اب ڈھکی چھپی نہیں کہ غزہ کے لوگ یا تو سسک سسک کر مرجائیں یا غزہ چھوڑ کر مصر، اردن یا دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ہوجائیں- دوسری خواہش اس لئے پوری نہیں ہوسکتی کہ اب عرب ممالک وہ نہیں رہے جو بیس سال پہلے ہوا کرتے تھے- کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر پوری طرح سے امریکا کی گود میں چلا گیا- شاہ حسین مرنے سے پہلے مشرف بہ بش ہوگیا تھا اور اب اس کا بیٹا امریکا اور اسرائیل کا اتنا ہی وفادار ہے جتنا کہ خود نیتن یاہو- چھوٹی بڑی خلیجی ریاستیں اب نہ تو الاسلامیہ کا نعرہ لگاتی ہیں نہ العربیہ کا، اب وہ امریکا کا کلمہ پڑھتی اور اسی کے نام کی مالا جپتی ہیں- الجزائر امریکی کالونی بن گیا- لیبیا نے سرنڈر کردیا، مراکش اور تیونس پہلے ہی امریکی ’’ڈومین‘‘ تھے- عراق کو امریکا نے کھنڈر بناکر شیعہ سنی خانہ جنگی اور عراقی، کرد آویزش میں الجھا دیا- لے دے کر ایک صومالیہ اور سوڈان فلسطینیوں کی مدد کرسکتے تھے، انہیں سول وار میں دھکیل کراول الذکر کو ناکام ریاست بنادیا گیا، دوسرے کوناکام ریاست کے گڑھے میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے- رہا شام تو وہ اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ جنگ کے نام ہی سے گھبراتا ہے- اسے اپنے قدیمی حلیف روس سے بھی مدد کا آسرا نہیں رہا- یہی وجہ ہے کہ حالیہ تنازع میں جب یہ خطرہ ظاہر کیا گیا کہ علاقے میں نئی جنگ بھڑک سکتی ہے اور شام اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے تو شام کے سفارتی حلقے نروس نظر آئے- شام کو سوویت اسلحہ ملا کرتا تھا، وہ اب اتنا کارگر نہیں رہا- نیا اسلحہ اسے نہ تو ضرورت کے مطابق مل رہا ہے اور نہ معیار کے مطابق- مشرق وسطی کے بھاڑ کو اکیلا شام کیا پھوڑے گا-
ظلم اور لاعلمی کی حد دیکھئے، دنیا بھر کے میڈیا نے2008ء کی خونریزی کو اسرائیل اور غزہ کی جنگ قرار دیا جیسے کہ غزہ بھی ویسا ہی کوئی ملک ہو جس طرح کا اسرائیل ہے- حالانکہ غزہ کوئی ملک نہیں ایک مقبوضہ علاقہ ہے- خود مختاری کے فراڈ معاہدے کے تحت غزہ کو صرف ایک ایسی حکومت منتخب کرنے کا اختیار ہے جس کی حیثیت ایک بلدیاتی ادارے سے زیادہ نہیں بلکہ اس سے بھی کم – اس لئے کہ مثال کے طور پر، اگر پاکستان کے کسی بلدیاتی ادارے کے ساتھ صوبائی حکومت زیادتی کرے، اس کے کام میں مداخلت کرے تو وہ بلدیاتی ادارہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے- غزہ کا بلدیاتی ادارہ تو یہ حق بھی نہیں رکھتا- عالمی میڈیا نے بڑے ظلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ حقیقت چھپائے رکھی کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہے- اسرائیل نے غزہ پر بمباری صرف اس لئے کی کہ قتل عام کا یہ طریقہ سب سے آسان تھا- اسرائیلی فوج گلی محلوں میں گھس کر بھی یہ قتل عام کرسکتی تھی لیکن ایسی صورت میں زندگی سے بے زار فلسطینی ان پر پتھر برساسکتے تھے جس کے نتیجے میں کئی معصوم یہودی فوجیوں کے سرماتھے پھوٹ سکتے تھے- چنانچہ سرماتھا بچانے کے لئے اسرائیل نے بے دریغ بمباری کی اور ایسے واقعات بھی ہوئے کہ بھاگتے بچوں پر اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے گولیاں برسائیں-
اسرائیل نے اپنے اس ظالمانہ فعل کو ایک عجیب وغریب نام دے رکھا ہے- وزیراعظم ایہوداولمرٹ کے مشیر ڈدو دیرگلاس نے ایک مرتبہ کہا کہ ہماری پابندیوں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی ’’ڈائٹنگ‘‘ کریں-
غزہ کی آدھی سے زیادہ آبادی نوعمر لڑکے لڑکیوں کی ہے یعنی 18سال یا اس سے کم عمر- فاقہ کشی اور ہر قسم کی سہولیات کی محرومی کے نتیجے میں گویا آنے والی پوری فلسطینی نسل کی زندگی برباد کی جارہی ہے اور یہ ایک ایسا مقصد ہے جس میں اسرائیل کو امریکا کی پوری مدد حاصل ہے- حماس کی کامیابی سے امریکا اور اسرائیل کی وہ نفرت جو انہیں فلسطینیوں سے تھی ، اور بھی بڑھ گئی- یاسر عرفات آخری دنوں میں امریکا پر ایمان لے آئے تھے لیکن ان کی ’’کنورشن‘‘ امریکا اور اسرائیل کے لئے کچھ زیادہ فائدہ مند نہیں ہوسکی کہ اس کے نتیجے میں پی ایل او کی مقبولیت کم ہوئی اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے آزادی کا مطالبہ واپس لینے سے انکار کردیا- اس وقت پی ایل او ’’غلامی‘‘ پر رضا مند ہوچکی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اسے خاصی تعداد میں ایسے فلسطینیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو سمجھتے ہیں کہ آزادی کے مطالبے نے ان کی زندگی عذاب کردی اسرائیل کے سامنے جھک کر زندگی سکون سے گزاری جاسکتی ہے لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسرائیل فلسطینیوں سے نفرت کرتا ہے- وہ مطیع ہوجائیں تب بھی واجب القتل ہی رہیں گے-
غزہ کیلئے انصاف کی ذمہ داری سب سے زیادہ اہل یورپ پر ہے- وہ یہودیوں کے اتنے دلدادہ نہیں جتنا امریکا ہے- وہاں انسانی حقوق کا شعور اور احترام بھی امریکا سے کہیں زیادہ ہے- عالم اسلام چھ سات ممالک انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلا دیش، ایران، صومالیہ، سوڈان اور ترکی کو چھوڑ کر پوری طرح امریکی ایمپائر کا حصہ بن چکا ہے اس لئے فلسطینیوں کو اس کی طرف سے کوئی مدد نہیں مل سکتی- یوں کہا جاسکتا ہے کہ یورپ کا باضمیر طبقہ ہی اہل غزہ کی آخری امید ہے-
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس