فلسطین کے معروف سیاسی تجزیہ نگار ھانی مصری نے انکشاف کیا ہے کہ 2007ء کے وسط میں فتح کے بعض قائدین نے غزہ میں حماس کے خلاف فوجی کارروائی کا منصوبہ تیار کیا تھا، جس کے بارے میں فتح کے لیڈروں نے انہیں آگاہ کیا تھا۔
اتوار کے روز رام اللہ میں ” فلسطینیوں کے درمیان اختلافات گہرے کرنے میں میڈیا کا کردار” کے عنوان سے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ھانی مصری نے کہا کہ 2007ء میں حماس کی جانب غزہ میں تخریب کاروں کے خلاف کارروائی سے چند ماہ قبل فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی جماعت نے فلسطین بھر میں بالعموم اور بالخصوص غزہ میں فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فتح کی جانب سے انہیں بتایا گیا کہ “آپ انتظار کریں، جولائی یا اگست 2007ء تک حماس کے خلاف سخت کارروائی ہونے والی ہے”۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ 2007ء کے وسط میں حماس کی جانب سے غزہ میں تخریب کاروں کے خلاف کارروائی کو فتح نے اپنے خلاف “انقلاب” قرار دیا تھا۔
انہوں نے فتح کی طرف سے حماس کی کارروائی کے لیے انقلاب کی اصطلاح کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انقلاب کا مقابلہ انقلاب ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ فتح ایک جانب حماس سے مذاکرات کر رہی ہے اور دوسری جانب اپنے خلاف انقلاب کی بات کرتی ہے، انقلاب اور مذاکرات دونوں ایک ساتھ کیسے ہو سکتے ہیں، اسے صرف سیاسی اختلافات کا نام دینا چاہیے۔