معروف فلسطینی صحافی اور فلسطینی امور کے ماہر ابراھیم دراوی نے کہا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے مصری حکام پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے سے متعلق ان کے پیش کردہ مطالبات کو اولیت دیں. فلسطینی صدر کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ کا محاصرہ اسی صورت میں ختم کیا جائے جب غزہ کی پٹی پر سلام فیاض کی حکومت اپنا اقتدار مستحکم کرلے۔
بدھ کے روز عرب خبر رساں ایجنسی” قدس پریس” کو انٹرویو میں ابراھیم دراوی نے کہا کہ محمود عباس کی پشت پر بعض اعتدال پسند عرب ممالک کھڑے ہیں. جن میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ بھی شامل ہیں۔ عمر موسیٰ نے دو روز قبل غزہ کی پٹی کے دورے کے بعد کہا تھا کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی اٹھانے کے لیے فلسطینی آئینی حکومت کا قیام ضروری ہے۔ آئینی حکومت کے قیام سے عمرو موسیٰ کا اشارہ محمود عباس اور ان کی جماعت فتح کا غزہ کی پٹی میں حکومت کو وسعت دین اتھا۔
مصری صحافی نے کہا کہ عمرو موسیٰ کے نزدیک اگرغزہ میں حماس کی حکومت آئینی ہوتی تو انہیں کسی دوسری آئینی حکومت کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت نہ تھی، گوکہ اپنے دورے کے دوران عمرو موسیٰ نے فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات بھی کی تاہم وہ مسلسل یہ تاثر دیتے رہے کہ غزہ میں جب تک محمود عباس کا اقتدار قائم نہیں ہو پاتا شہر کی معاشی ناکہ بندی کو ختم کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے مصری حکام کے سامنے پیش کردہ شرائط سے نہ صرف غزہ کی معاشی ناکہ بندی اٹھانے میں مشکلات پیدا ہوں گی بلکہ فلسطین میں مصالحت اور مفاہمت کا عمل بھی مشکل ہو جائے گا۔