مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن احمد عطون نے کہا ہے کہ انہیں ان کے دیگر تین افراد کے ہمرا شہر چھوڑنے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے، ان کا کہنا ہے کہ وہ القدس نہ چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں، تاہم انہیں اسرائیل کی طرف سے طاقت کے زور پر ملک بدر کیے جانے کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے القدس کے دو دیگر اراکین قانون سازک ونسل محمد طوطح اور محمد ابو طیر جبکہ ایک سابق وزیر خالد ابوعرفہ کو جولائی کے شروع تک القدس شہر چھوڑنے کے نوٹس جاری کیےجا چکے ہیں۔ پیر کے روز بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی “رائٹرز” کو انٹرویو میں محمد عطون نے کہا کہ” ہمیں اسرائیل کی طرف سے 02 جولائی تک القدس چھوڑنے کو کہا گیا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ اس کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوگا اور ہمارا کیا انجام ہوگا، تاہم ہم سب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فلسطین ہمارا وطن ہے اور القدس ہماری مقدس سر زمین ہے جسے ہم کسی صورت میں نہیں چھوڑیں گے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں پر ہمارے آباؤ اجداد صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہیں اور یہ خطہ ہی ہماری شناخت اور پہنچان ہے”۔ محمد عطون کا کہنا تھا کہ القدس سے نکل جانے کا اسرائیلی حکم نہ صرف عالمی انسانی قوانین اور حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ خود اسرائیل کے اپنے قانون کےخلاف ہے، اسرائیل ہمیں القدس سے بے دخل کرنا چاہتا ہے جبکہ ہمارے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت بھی نہیں، ہم کہاں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے سمیت فلسطینی مجلس قانون ساز کے دو دیگر اراکین محمد طوطح اور ابو طیر جبکہ سابق فلسطینی وزیر برائے القدس امور خالد ابوعرفہ کو چند روز قبل اسرائیلی حکومت کی طرف سے نوٹس جاری کیے گئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ ان کے پاس صرف ایک ماہ کی مہلت ہے، اس دوران وہ رضا کارانہ طور پر القدس چھوڑ دیں ورنہ 02 جولائی کو اسرائیل اپنی مرضی سے انہیں ملک بدر کر دے گا۔ پولیس کی جانب سے ملنے والے نوٹس میں بتایا گیا ہے کہ ان چار افراد کی القدس میں عارضی اقامت ہے اور وہ اپنا سامان سمیٹ کر کسی دوسرے علاقے یا ملک میں چلے جائیں۔ محمد عطون نے کہا کہ چار سال قبل جب وہ فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن تھے تو اس وقت کے اسرائیلی وزیر نے انہیں دھمکی دی کہ وہ فلسطینی مجلس قانون ساز سے الگ ہو جائیں ورنہ انہیں شہر سے نکال دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مجلس قانون ساز کے اراکین اور سابق وزیر کی شہر بدری کا نوٹس ایک ایسے وقت میں جاری ہوا ہے جبکہ اسرائیل کے القدس کی سرکردہ 350 شخصیات کی ایک فہرست تیار کی ہے جنہیں القدس سے نکالے جانے پرغور کیا جا رہا ہے۔