عرب دنیا کے سولہ ممالک کی 800 سے زائد شہری تنظیموں نے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل کی جانب سے ’’ آزادی کے قتل عام‘‘ کی شدید مذمت کی ہے۔ اس صہیونی جارحیت میں چار سال سے محصور اہل غزہ کی مدد کے لیے چالیس ممالک کے نمائندے اور امدادی جماعتوں کے 20 رضا کار شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق آٹھ سو تنظیموں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو دیے گئے متفقہ بیان کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی جانب گامزن ’’قافلہ حریت‘‘ پر حملہ کر کے بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ جارحیت انسانی عالمی قوانین بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن اور انسانی قوانین کی تمام معروف اقداروں کے بھی خلاف تھی۔ بین الاقوامی پانیوں کے اندر انسانی امداد اور بحالی کے قافلے پر جارحیت تمام عالمی قوانین کے رو سے ہائی جیکنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ قوانین تمام انسانوں کو بین الاقوامی سمندری حدود سے گزرنے کو انسانی بنیادی ضروری حقوق میں شمار کرتے ہیں، مسلح جارحیتوں کے شکار محصورین کی امداد کو جانے والے قافلے کو یہ آزادی بدرجہ اولی حاصل تھی۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی اندوہناک جارحیت 1949 ء میں طے پانے والے چوتھے جنیوا کنونشن کی بنیادی شقوں کے مخالف ہے، کنونشن کے مطابق کسی بھی مسلح تصادم کے دوران انسانی بحالی اور امدادی کارروائیوں کے لیے جانے والے بحری جہازوں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، غزہ کی امداد کو جانے والے اس قافلے میں شریک تمام بحری جہاز امدادی سامان سے لیس تھے اور کسی بھی جہاز پر کسی قسم کا اسلحہ موجود نہ تھا، جہازوں پر سوار تمام رضاکار نہتے تھے۔ یہ قافلہ اپنے آغاز کے دن سے ہی بارہا اعلان کرتا چلا آ رہا تھا کہ یہ ایک امدادی قافلہ ہے۔ اس سب کے باوجود اس قافلے پر حملہ کر کے قتل و غارت گری کرنا اور اس کے رضا کاروں کو ڈرا دھمکا کر زبردستی اشدود کے ساحل پر لے جانا عالمی عمومی قوانین کی رو سے عالمی ہائی جیکنگ کی تعریف کے صادق آنے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح یہ سب عالمی انسانی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے ان قوانین کی رو سے انسانی بحالی کے لیے جانے والے جہاز کو عورتوں بچوں اور مریضوں تک پہنچنے سے روکنا ممنوع ہے بالخصوص جب اس پر کسی مخصوص ملک کا جھنڈا لہرا رہا ہو، اس کا سفری راستہ واضح ہو، اس کا سامان، اس کے روانہ ہونے کی بندرگاہ اور لنگر انداز ہونے کی بندرگاہ کا بھی اعلان کیا گیا ہواس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا بدترین جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ تنظیموں نے اپنے بیان میں کہا کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کا سبب بننے والے روم کا بنیادی نظام اور جنیوا کنونشن اس طرح کی جارحیتوں کو واضح طور پر جنگی جرائم شمار کرتے ہیں۔ بالخصوص قانونی عبارتیں غیر جانبدار ملکوں کے طبی عملے اور بحری جہازوں پر حملے کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ انسانی امدادی قافلوں کا انحصار ان دو بنیادی امور پر ہوتا ہے۔ اول عالمی عمومی یا انسانی قوانین کی شقوں کو لاگو کرنا جن کے مطابق کسی بھی انسانی گروہ کے لیے انسانی امداد اور انکی بھوک کو ختم کرنے والی اشیا کی ترسیل کو روکنا درست نہیں، اس ضمن میں حالت جنگ اور حالت امن دونوں برابر ہیں۔ دوسرا انسانی اور جنگی جرائم کے مرتکب گروہ کے سیاسی مفادات کے حصول میں رکاوٹ اور ظلم کے شکار گروہ کی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے محاصرے کی وجہ سے عام شہریوں کو درپیش مشکلات اور بھوک کے دباؤ کو کم کرنا۔ اس متفقہ بیان پر دستخط کرنے والوں نے انسانیت کے خلاف قتل عام پر مشتمل صہیونی جنگی جرم کے مرتکبین کے تعاقب میں عالمی ناکامی پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ دیر یاسین، کفرقاسم، قبیہ، سموع، مدرسہ بحر البقر، قانا اول اور قانا ثانی، 2009ء کی غزہ کی اسرائیلی جارحیت اور اسی طرح کئی دوسری خونریزیوں پرعالمی برادری کی خاموشی نے خونخوار اسرائیل کو مزید بھیانک جرائم کےارتکاب پر ابھارا ہے۔ اس موقع پر تمام تنظیموں نے اپنے متفقہ اعلامیے میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے غزہ کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی محاصرے کو فورا ختم کرانے کا مطالبہ کیا۔