صہیونی اٹارنی جنرل کی جانب سے فلسطین کی اسیر خاتون وکیل شیرین العیساوی پر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں سے تعلق کےمزاحمت کاروں کی مدد اور فلسطینی قیدیوں کے کنیٹین کے اخراجات کی ادائیگی کا الزام عائد کیا ہے۔ عیساوی مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی سینٹرل جیل میں پابند سلاسل ہیں. اسرائیلی عدالت اٹارنی جنرل کی درخواست پر یکم جون سے عیساوی کے مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع کرے گا۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق یکم جون کو ہونے والی کیس کی سماعت میں تین دیگر قیدیوں کے ساتھ شیرین عیساوی کے دو بھائیوں کے مقدمات کی بھی سماعت ہوگی. جن پرمزاحمت کاروں سے تعاون اور مزاحمتی تنظیموں سے تعلق کے الزامات عائد کیے گئےہیں۔ دوسری جانب شیرین عیساوی کے وکیل نے منگل کے روز مقبوضہ بیت المقدس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ اس کی موکلہ بے گناہ ہیں اور ان پر مزاحمتی تنظیموں سے تعلق کا الزام سراسربے بنیاد ہے.ان پراب تک دہشت گردی کی کسی بھی کاروائی کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ شیرین فلسطینی حکومت کی طرف سے طے شدہ معاہدے اور طریقہ کار کے مطابق تمام فلسطینی قیدیوں سے بلا تفریق ملاقات کرتی ہیں. انہوںنے ذاتی طور پر کسی قیدی کے کینیٹن کے واجبات ادا نہیں کیے بلکہ فلسطینی حکومت کی طرف سے انہوں نے بعض ایجنسیوں کے ذریعے مختلف قیدیوں کے اسرائیلی جیلوں کی کینٹین کے واجبات ادا کیے ہیں. جو ان کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اس کی موکلہ پراسرائیلی تفتیش کاروں کی جانب سے کئی کئی گھنٹے تک نفسیاتی تشدد کر کے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے اسرائیلی دباؤ اور تشدد کو برداشت کیا ہے اور قیدیوں کی وکالت سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری جانب اسیر خاتون وکیل کے والد الحاج ابو رافت نے کہا ہے کہ اس کی بیٹی پرتمام الزامات قطعی بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام فلسطینی صہیونی تسلط میں زندگی بسر کر رہے ہیں،اسرائیل کے حوالے سےپوری فلسطینی قوم کا ایک موقف ہے. اسرائیل کو یہ اختیار قطعی نہیں کہ وہ کسی فلسطینی شہری کو دہشت گرد قراردے۔ حاجی رافت کا کہنا تھا کہ “میری بیٹی نے فلسطینی حکومت کے امور اسیران کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کے کینٹین کے واجبات ادا کیے ہیں. یہ اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی جو اس نے پوری کی ہے”۔ واضح رہے کہ صہیونی ملٹری سینسر شپ نے شیرین عیساوی سمیت زیرحراست بیت المقدس کے سات شہریوں کی تحویل سے کئی ملین شیکل قبضے میں لیے جانے کی خبرنشر کرنے کی اجازت دی ہے۔ صہیونی ملٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ زیرحراست ساتوں افراد سے قبضے میں لی جانے والی خطیر رقم غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کے لیے ارسال کی جا رہی تھی۔