رام اللہ کی غیر آئینی حکومت کے صدر محمود عباس نے قابض اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں مسلح مزاحمت کی طرف لوٹنے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے اپنے مزاحمت مخالف طرز عمل کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کے حالیہ بیان سے یہ امر واضح ہو گیا کہ عباس اور اس کے صہیونی حلیف کے مابین لایعنی مذاکرات کا ڈھونگ محض اسرائیل کے اندوہناک جرائم کی پردہ پوشی کے لیے رچایا جا رہا ہے۔ فرانسیسی ٹی وی چینل ’’ فرانس 24 ‘‘ کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو نام نہاد فلسطینی صدر نے کہا ہے کہ اگر ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں کامیاب نہیں ہوتے تو عرب لیگ کے پلیٹ فارم سے تحقیق کی جائے گی، یہ کیسے ممکن ہے کہ عرب لیگ کو چھوڑ کر ہم سیکیورٹی کونسل میں چلے جائیں؟ اس معاملے کو غلط طور پر سمجھا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ تمام فلسطینی یک طرفہ طور پر فلسطینی ریاست کے اعلان کے خواہشمند ہیں، ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم ناکام ہو گئے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں گے؟ کیا سیکیورٹی کونسل کے علاوہ کوئی اور پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے موزوں ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ کوئی بھی آپشن اختیار کرنا درست نہیں ہوگا، مسلح مزاحمت کی طرف جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ محمود عباس نے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آ گیا تو دونوں جانب سے ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گا، انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں ایک ثالثی کا کردار ادا کرنے والی کسی تیسری طاقت کی ضرورت پڑے گی تاکہ وہ ہم پر کسی بھی طرح کا حملہ نہ ہونے کی یقین دہانی کرا سکے اسی طرح اسرائیل کو اطمینان دلانے کے ساتھ امن عمل کی بحالی میں پوری مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ یہ تیسری قوت کوئی عالمی طاقت ہو۔ اسرائیل کے علاوہ کوئی بھی تیسری طاقت یہ فریضہ سرانجام دے سکتی ہے۔