تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے آپ کو اس مقدس مہینہ میں وارد کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر اس مہینہ کا استقبال کر رہاہے۔ہر طرف ایک نیا ولولہ اور جوش ہے۔یعنی رمضان المبار ک کو خوش آمدید کرنے کے لئے ہر سطح پر تیاریاں کی جا رہی ہیں۔مسلمان اس ماہ میں اپنے آپ کو اللہ کے قریب تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رحمت، برکت اور مغفرت کے مواقع سے بھر اہو اہے۔
سال 2024ء کا ماہ رمضان المبارک ایسے موقع پر آ رہا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کے علاقہ غزہ کی پٹی میں گذشتہ چھ ماہ سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل فلسطینیوں کی منظم نسل کشی میں مصروف ہے۔ یہ نسل کشی امریکہ، برطانیہ اور مغربی حکومتوں کی باقاعدہ ایماء پر کی جا رہی ہے۔دنیا میں کوئی ایسی مغربی اور عرب حکومت سمیت مسلمان ممالک کی حکومت موجود ہی نہیں ہے جو غاصب صیہونی حکومت کے ناپاک ہاتھوں کو کاٹ کر پھینک دے۔فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی ہیں جو غزہ کے مظلوموں کا دفاع کر رہے ہیں۔ لبنان میں جنوبی لبنان اور شمالی فلسطین کی ایک سو بیس کلو میٹر کی سرحد پر حزب اللہ ہے جو غزہ کا دفاع کرتے ہوئے غاصب صیہونی فوج سے مسلسل جنگ میں ہے۔یمن میں انصار اللہ اور مسلح افواج ہیں جو غزہ کے ساتھ اپنی یکجہتی کے لئے بحیرہ احمر میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی جہازوں سمیت ہر اس جہاز کا راستہ روک رہے ہیں جو غاصب اسرائیل کی طرف جا رہا ہو یا پھر وہاں سے آ رہا ہو۔اسی طرح عراق میں بھی غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لئے مزاحمت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔
بد قسمتی سے مسلمان حکومتیں اور عرب حکومتیں مکمل بے حس ہو چکی ہیں۔بے حسی سے زیادہ بے شرمی ہے کہ غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والی غاصب صیہونی حکومت کو ترکی جیسا ملک تیل اور گیس کی سپلائی دے رہاہے۔ سعودی عرب، بحرین، اور اردن سمیت دیگر اپنے اپنے تعلقات اسرائیل کے ساتھا ستوار کرنے میں مصروف ہیں۔
بہر حال ایسے ہی سنگین حالات میں ماہ رمضان المبارک کی آمد ہے۔ اس تحریر سے قارئین کے لئے یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ماہ رمضان ہاں عبادت کا مہینہ ہے، جہاں رحمت اور مغفرت سمیت برکتوں کا مہینہ ہے وہاں یہ رمضان کا مہینہ بلا شک و تردد ”فلسطین کا مہینہ“ بھی ہے۔
موجودہ صورتحال میں فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرنا ہمارا دینی، سیاسی، اخلاقی اور سب سے بڑھ کر انسانی فریضہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں عبادات اور تقوی کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ فلسطین کے مظلوموں کا غم بھی یاد رکھا جائے۔فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والی صیہونی مصیبت کو بھی یاد رکھا جائے۔ اس مصیبت کے خلاف آواز احتجاج بلند کی جائے۔ حکومتوں کو دباؤ دیا جائے کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کریں۔ ماہ رمضان المبارک کا اصل فلسفہ یہی ہے کہ انسانیت کی بقاء اور حفاظت کی جائے۔ اسی لئے ماہ رمضان المبارک فلسطین کا مہینہ بھی ہے۔
آئیں اس ماہ رمضان المبارک میں فلسطین کا مہینہ کے عنوان سے معصوم اور بے یار ومدد گار فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ اپنی عبادات اور محافل میں فلسطین کے مظلوموں کا تذکرہ کریں، فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی کامیابیوں کو اجاگر کریں۔ غاصب صیہونی دشمن کے انسانیت مخالف ایجنڈا کو بے نقاب کریں۔ عالمی دہشت گرد امریکہ کی دوہری پالیسیوں اور فلسطینیوں کی منظم نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ دینے پر دنیا بھر میں سخت احتجاج کیا جائے۔یہی رمضان فلسطین کا مہینہ ہے۔
ویسے بھی ماہ رمضان المبار کے آخری جمعہ کو دنیا بھر میں عالمی یوم القدس منایا جاتا ہے لیکن اس سال ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ماہ رمضان المبارک کو فلسطین کا مہینہ منایا جائے۔ عوامی شعور کو بیدار کیا جائے۔حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ غزہ کے مظلوموں کی عملی مدد کریں۔اگر ہم نے اس ماہ رمضان المبارک کو فلسطین کا مہینہ تصور کیا اور اس راستے میں اقدامات کئے تو یقینی طور پر یہ اقدامات امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی حکومتوں اور تمام دشمن قوتوں کے لئے بڑی شکست سے تعبیر ہو گا۔
رمضان المبار ک کا مہینہ انسانیت کا درس دیتا ہے۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی پایمالی ہے۔ا ٓئین فلسطین کا مہینہ ہے اس میں فلسطین کے انسانوں ک حقوق کا دفاع کریں۔ رمضان المبار ک کا مہینہ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لہذا یہ فلسطین کا مہینہ ہے۔آئیں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کریں۔ ان کے لئے آواز اٹھائیں۔رمضان المبار ک کا مہینہ ہمیں ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے۔لہذا یہ فلسطین کا مہینہ ہے آئیں اس مہینہ میں ہم اپنی قیمتی ترین چیزوں کو فلسطین کی مظلومیت کے لئے قربان کریں۔اپنے وقت کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ فلسطین کی مدد کریں، فلسطینی مظلوموں کی حمایت کریں۔یہی رمضان المبار ک کا تقاضہ ہے یہی فلسطین کا مہینہ ہے۔