تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
غزہ پر جاری صیہونی جارحیت اور فلسطینی مزاحمت کی جوابی کارروائیوں کا دورانیہ ایک ماہ کی مدت سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ اسرائیل غزہ میں کسی ایک ہدف میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی قتل اور زخمی ہوئے ہیں، لاکھوں بے گھر اور بے سر و سامان ہوگئے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل امریکہ کی تمام تر پشت پناہی اور فوجی مدد کے باوجود غزہ میں کسی ایک ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ صرف اسرائیلی فوجی قیدیوں کا ہی معاملہ ہو تو بھی تا دم تحریک ایک فوجی کو بھی فلسطینی مزاحمت کی قید سے آزاد کروانے میں ناکام رہی ہے۔ حالانکہ موساد کے چیف نے قطر اور مصر کے دورے کئے ہیں اور دونوں عرب حکمرانوں سے مذاکرات میں کہا ہے کہ حماس سے بات کریں اور ہمارے اسرائیلی فوجی قیدی واپس دیں، لیکن تاحال کسی قسم کا کوئی معاہدہ سامنے نہیں آیا ہے۔
بہرحال اس تمام تر صورتحال میں امریکہ نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ اسرائیل کے لئے طویل مدت تک جنگ میں رہنا جہاں اسرائیل کی اپنی بربادی کا سبب ہوگا، وہاں ساتھ ساتھ امریکہ کے لئے بھی نقصان دہ ہے، کیونکہ امریکی جنگی بحری جہازوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت بحیرہ عرب کے پانیوں میں موجود ہے اور صورتحال اس قدر تبدیل ہوچکی ہے، اب یمن سے چلنے والے بیلسٹک میزائل بھی تل ابیب، حیفا اور ایلات جیسے اہم شہروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف غزہ پر اسرائیلی بمباری کے آغاز سے ہی جنوبی لبنان سے شمال فلسطین کی سرحد پر مسلسل جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور اسرائیلی فوجیوں کو روزانہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ تین ہفتوں کی مسلسل لڑائی میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کے ایک سو پچاس سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ کئی اہم چیک پوسٹوں کو اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے خالی کر دیا گیا ہے۔ شمال فلسطین کی کئی صیہونی بستیاں ویران ہیں اور صیہونی آبادکار فرار کرچکے ہیں۔
دوسری جانب امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ مسلسل آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد سے صیہونی حکام کے ساتھ حساس نوعیت کی ملاقاتیں انجام دے چکی ہے اور ان حساس قرار دی گئی ملاقاتوں کے دوران امریکی حکام نے اچانک طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیلی رہنماؤں کی کمزوری کو محسوس کیا ہے۔ جس کے بعد امریکی حکومت کو اب خطرہ لاحق ہے کہ اسرائیل کی کمزوری خطے میں امریکی مفادات اور فوجی جنگی بحری جہازوں کے لئے مشکلات کھڑی نہ کر دے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ امریکی حکومت کے اہلکاروں نے محسوس کیا ہے کہ اسرائیلیوں کے لیے دو محاذوں پر لڑنا مشکل ہے۔ لہذا امریکہ نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کریں، جو حزب اللہ کو جنگ میں گھسیٹ سکے، جبکہ دوسری جانب حزب اللہ مسلسل اسرائیل کے خلاف کارروائیاں انجام دے رہی ہے اور اسرائیل کی فوج کو ایک نئے محاذ میں گھسیٹ کر لانے میں کامیابی حاصل کر رہی ہے۔
اخبار نے تصدیق کی کہ خطے کے تقریباً تمام حصوں میں ہونے والی متعدد ملاقاتوں میں امریکی سفارت کاروں نے اپنے عرب ہم منصبوں پر زور دیا کہ وہ حزب اللہ کو پیغامات پہنچانے میں مدد کریں، تاکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کسی بھی قسم کی جنگ چھڑنے سے روکنے کی کوشش کی جا سکے۔ واضح رہے کہ اسی تناظر میں ہی کچھ دن قبل حزب اللہ کے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اگر امریکہ اور تمام مغربی دنیا کے بحری بیڑے بھی جمع ہو جائیں تو بی حزب اللہ فلسطینی مزاحمت اور غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگی۔ اخبار سے بات کرنے والے دونوں فریقوں کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ”انھوں نے اسرائیلیوں کو اشتعال انگیز فوجی کارروائیوں کے خلاف متنبہ کرنے کے لیے واضح زبان استعمال کرنے سے گریز کیا، کیونکہ وہ اس کمزوری کو سمجھتے ہیں، جو اسرائیلی حکام نے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد محسوس کی تھی۔
لیکن بائیڈن اور بلنکن دونوں نے اپنے خدشات کو واضح کر دیا ہے اور اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ دو محاذوں پر جنگ میں شامل نہ ہو۔ امریکی حکام نے کہا کہ ”بائیڈن نے گذشتہ دنوں اسرائیلی جنگی کابینہ سے ملاقات کی، جہاں اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ موجود تھے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر تنازع کے نتیجے میں ہونے والے بہت سے نتائج کے بارے میں مشکل سوالات پوچھ کر دو محاذوں پر جنگ کے خطرات پر زور دیا۔ بائیڈن نے امریکی حکام کی طرف سے عراق پر حملہ کرنے اور افغانستان میں ایک طویل، کھلی جنگ شروع کرنے کے لیے کیے گئے تباہ کن فیصلوں کا بھی تذکرہ کیا۔ اخبار نے حزب اللہ پر اسرائیلی حملے روکنے کے لیے سینیئر امریکی حکام کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کا انکشاف کیا ہے۔ اس نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جنگی منصوبہ بندی کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے خدشات کے بارے میں بات کی، یہاں تک کہ الجزیرہ نیٹ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق دونوں حکومتیں ایک متحد اور مضبوط محاذ کے طور پر عوامی طور پر ظاہر ہونا چاہتی ہیں۔
اس میں دونوں جماعتوں کے عہدیداروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ”امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے سینیئر معاون تل ابیب پر زور دے رہے ہیں کہ وہ حزب اللہ کے خلاف کوئی بڑا حملہ نہ کرے، تاکہ اسے جنگ میں نہ گھسیٹا جائے، کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کمزوری میں ہے اور غزہ جنگ کے بعد سے اب تک مسلسل اسرائیل کی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”امریکی حکام کو تشویش ہے کہ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے کچھ انتہائی سخت گیر ارکان حزب اللہ کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے، جبکہ اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی تازہ ترین کارروائی شروع کرنے کے بعد طویل جدوجہد شروع کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”امریکی حکام کا خیال ہے کہ اسرائیل دو محاذوں پر جنگ میں مصروف ہو جائے گا، جس کے بعد یہ تنازعہ امریکا اور ایران دونوں کو تصادم کی طرف لے جا سکتا ہے۔ امریکہ دراصل ایران کے ساتھ بھی کسی قسم کی محاذ آرائی سے اجتناب کر رہا ہے، کیونکہ امریکی حکومت یہ جانتی ہے کہ خطے میں اگر ایران کے ساتھ براہ راست تصادم شروع ہوا تو امریکہ کے مفادات کو بڑے پیمانہ پر نہ صرف ایران کی جانب سے بلکہ عراق، یمن، شام اور فلسطین سمیت کئی مقامات پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اور حالیہ صورتحال میں یمن کی میزائل قوت نے امریکہ اور اسرائیل کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے۔