اس سلسلے میں روسی مسودہ اپیل سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں فوری جنگ بندی اور مغویان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ روسی مسودے میں دہشت گردی کے تمام تر اقدامات اور سویلینز پر حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔
واضح رہے امریکی اور اسرائیلی خواہش یا موقف کے مطابق روسی مسودے میں حماس کا نام نہیں لکھا گیا ہے۔ حماس غزہ کی حکمران جماعت ہے اور اس نے غزہ فلسطین کے عام انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ جمہوری حکومت بنائی تھی۔ تاہم اسرائیل اور اس کے حامی ممالک اسے ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کی طرح یورپی یونین نے بھی حماس کو ایک دہشت گروپوں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔
ہفتے کے دن حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے اب تک کے سب سے زیادہ بڑے حملے کے دوران اسرائیل کی سینکڑوں ہلاکتوں کے علاوہ ایک سو پچاس فوجی ، نیم فوجی اور عام شہری اغوا کر لیے گئے تھے۔ ان مغویان میں اسرائیل کے علاوہ امریکہ کے بھی کئی شہری شامل ہیں۔
دوسری جانب امریکہ نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ کونسل فلسطین کے اسلام پسندوں اسرائیل پر حملے کی مذمت کرے۔
اسرائیل نے حماس کے اس حملے کے بعد غیر معمولی طور پر بمباری کی ہے اور بمباری کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اسرائیلی بمباری کا ہدف انتہائی گنجان غزہ کی پٹی ہے، جہاں اب تک 1900 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے اکثریت عام شہریوں کی ہے، جن میں 600 بچے بھی شامل ہیں۔
روس کے واسیلی نیبینزیا اقوام متحدہ کے لیے سفیر نے کہا ہے کہ ہم سلامتی کونسل کو قائل کر رہے ہیں کہ جاری خونریزی کو روکنے کے لیے اقدامات کرے اور دوبارہ سے ایسے امن مذاکرات کا آغاز کیا جائے جن کا مقصد فلسطینی ریاست کا قیام ہو جیسا کہ بہت عرصہ پہلے سے مانا گیا ہے۔
روسی سفیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں اس مسودے کے حوالے سے کئی ملکوں سے مثبت ریسپانس ملا ہے۔ تاہم سفیر نے امریکہ پر الزام لگایا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کو ہوا دینے میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔
روس کے اقوام متحدہ میں سفیر نے یورپی کمیشن کے سربراہ کی کہ انہوں نے غزہ اور اس کے شہریوں اور انفراسٹرکچر پر اسرائیلی بمباری سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔