تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
حال ہی میں G-20اجلاس کے بعد سعودی عر ب کے ولی عہد کی ہندوستان کے وزیر اعظم نیریندر مودی کے ساتھ ہونے والی گرمجوش ملاقات میں ایک ایم او یو دستخط کیا گیا ہے جس میں بر اعظم ایشیاء کو بر اعظم یورپ کے ساتھ براستہ مشرق وسطی جوڑنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد نے اس منصوبے سے متعلق ایم او یو پر دستخط کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آج مجھے خوشی ہے کہ ہم انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو جوڑنے والی اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کی غرض سے اس دوست ملک میں جمع ہیں۔‘انہوں نے کہا، ’یہ منصوبہ گذشتہ چند ماہ کے دوران ہماری مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ان اصولوں پر بنایا کیا گیا ہے جو اقتصادی رابطوں کو بڑھا کر اور دوسرے ممالک میں ہمارے شراکت داروں اور مجموعی طور پر عالمی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرکے ہمارے ممالک کے مشترکہ مفادات پورے کرتے ہیں۔‘’یہ منصوبہ ریلوے، بندرگاہوں کو جوڑنے، اور سامان اور خدمات کی ترسیل میں اضافے سمیت بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور اپ گریڈیشن میں کردار ادا کرے گا، اس طرح شریک فریقین کے مابین تجارت میں اضافہ ہوگا۔‘انہوں نے کہا، ’ہم نے اس میمورنڈم میں جس چیز پر اتفاق کیا ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے، ہمیں چاہیے کہ اجتماعی کوششیں جاری رکھیں اور متفقہ ٹائم فریم کے اندر اس کے نفاذ کے لیے ضروری میکانزم تیار کرنے کا فوری آغاز کریں۔
اگر چہ اس منصوبہ سے متعلق دستاویز پر دستخط اور ا سکی تفصیل کا اعلان سعوی ولی عہد محمد بن سلمان نے کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کی چین کے مقابلے پر آنے کی اس کوشش میں سعودی عرب چین کو مطمئن کر پائے گا؟ کیونکہ ماضی قریب میں ہی چین نے سعودی عر ب کے ساتھ بھی کچھ اہم معاہدوں پر دستخط کئے تھے اور پھر ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں کی قربت کا باعث بھی چین ہی تھا۔
ویسے تو یہ معاہدہ بہت اچھا ہے لیکن شاید اس کے پس پردہ مقاصد میں ہندوستان چین کی بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے کوشاں ہے۔ ایک طرف ہندوستان، امریکہ اور مغربی قوتیں مشترکہ طور پر چین یورپ اور ایشیاء سمیت افریقا میں بھی معاشی سرگرمیوں سے پریشان ہیں۔لہذا ایشیاء کو یورپ سے ملانے کے لئے ہندوستان سے ایک نیا آغاز یقینی طور پر اس بات کا عندیہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک مل کر ہندوستان کے ذریعہ چین کا راستہ بھی روکنا چاہتے ہیں۔کیا واقعی ہندوستان چین کے مقابلہ پر پورا اتر پائے گا؟ یہ ایک سوال باقی ہے۔
اسی طرح خطے میں ہندوستان کی پڑوسی ریاستوں بالخصوص پاکستان کا بھی اہم سوال ہے؟ کہ اس منصوبہ کی عملی شکل میں پاکستان کا کردار کیا ہو گا یا پھر پاکستان کے بغیر ہندوستان کس متبادل راستہ کو اختیار کرتا ہو ایشیاء کو یورپ سے جوڑنے کے خواب کو عملی جامہ پہنائے گا؟
دنیا کے نقشہ کو بغور مطالعہ کریں تو ہندوستان کے کے ذریعہ ایشیا ء کو یورپ سے جوڑنے کا زمینی راستہ پاکستان کے بغیر ناممکن ہے۔ہندوستان کے سمندری راستے سے یورپ کو جوڑنا انتہائی طویل مسافتی راستہ ہے جو ایشیاء اور یورپ کے ملاپ کے راہداری مقصد کو ختم کردیتا ہے۔ ایک طرف ہندوستان کے ساتھ چین ہے اور اس سے آگے منگولیا او ر پھر روس،لہذا یہاں سے بھی ایشیاء کو یورپ سے ملانے اور راہداری کا منصوبہ قابل عمل نظر نہیں آتا ہے۔اب ایک اور آخری راستہ جو کہ پاکستان کے ساتھ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان اس راہداری کے لئے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے گا؟ یا پھر سعودی عرب کے ذریعہ پاکستان کو پابند کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ مزید یہ سوال کہ کیا پاکستان اس راہداری میں ہندوستان کے ساتھ شریک ہو جائے گا؟ اگر چہ پہلے ہی پاکستان چین کے راہداری منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت سی پیک میں چین کے ساتھ اتحاد ی ہے۔کیا پاکستان چین کو ناراض کر سکتا ہے؟ اگر چین کو نارا ض کرتا ہے تو پھر کوئی اور معتبر واسطہ موجو دہے؟ ہندوستان پر تو چین کے مقابلہ میں بالکل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔بہر حال یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عنقریب مستقبل میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا جس کی لگام سعودی ولی عہد نے تھام رکھی ہے۔اس طرح کے متعد د سوالات موجود ہیں جو ایشیاء کو یورپ سے ملانے والی اس راہداری کے متعلق راقم کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد کے ہندوستان کے وزیر اعظم سے ملاقات اور پھر راہداری منصوبہ کے اعلان کے بعد یہ خبریں بھی منظر عام پر آ رہی ہیں کہ سعودی ولی عہد نے مقبوضہ کشمیر ہندوستانی حق کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستانی علاقہ تسلیم کیا ہے۔اگر ایسا ہو اہے تو پھر ہندوستان کی گذشتہ چند سالہ کشمیر پالیسی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔کیا ایشیاء اور یورپ کو جوڑنے والی راہداری کی لکیر کشمیری عوام کی امنگوں کے خون سے کھینچی جانے والی ہے؟
گذشتہ ماہ سے کچھ ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ کہ ہندوستانی فوج کشمیر پر حملوں کی تیاری کر رہی ہے اور کسی بھی دن کشمیر پر حملہ کیا جا سکتا ہے یا کشمیر پر نہیں تو پاکستان کے کچھ علاقوں میں یا پھر آزاد کشمیر پر ہندوستانی فوج کاروائی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر اس کا تمام تر فائدہ مودی سرکار کو دیا جانے کا امکان ہے۔انتہا پسند ہندو اور ان کی جماعتیں پہلے ہی مسلمانوں سے اپنی نفرت کا اظہار ان پر ظلم کے ذریعہ انجام دے رہی ہیں اور اب اگر ایسے حالات میں ہندوستان کسی وقت پاکستان پر حملہ کرے اور پھر کچھ دن میں یہ جنگ بندی بھی ہو جائے تو مودی کے آئندہ انتخابات پر اس تمام معاملہ کا مثبت اثر پڑنے کا امکان قوی ہے۔اسی طرح اگر مودی اگلے انتخابات میں کامیاب ہوتا ہے تو یقینی طور پر اس طرح کے منصوبوں کو آگے بڑھایا جائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایشیاء کو یورپ سے جوڑنے والی راہداری منصوبہ کو باقاعدہ شروع کرنے اور جاری رکھنے کے لئے امریکہ اور مغربی اتحادیوں سمیت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے لئے مودی سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی اور نہیں ہے۔لہذا ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی متعدد حکومتیں اس بات پر متفق ہو چکی ہیں کہ کشمیر کا معاملہ اب ہندوستان کے حق میں تسلیم کریں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ردی کی ٹوکری کا رخ دکھایاجانے کا قوی امکان ہے۔ایسے حالات میں اب پاکستان کے موجودہ غیر مستحکم حالات بھی ان تمام تر تجزیوں اور پیشن گوئیوں کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں جن خدشات کا اظہار مقالہ میں کیا گیا ہے۔سوال پھر وہی ہے کہ کیا سب نے مل کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ایشیاء اور یورپ کی راہداری میں کشمیری عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا؟کیا مسئلہ کشمیر کو قربان کرنا ہو گا؟ اس سب سے بڑھ کر کیا کشمیر کو قربان کرنا ہو گا؟ آیا اس کے پاکستان کے معاشرے اور سیاسی منظر نامہ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں؟یہ واقعی ایک سنگین صورتحال ہے۔