صہیونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں سب سے بڑے صہیونی منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس منصوبے پر کام کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان بالواسطہ امن مذاکرات میں مصروف ہیں۔
اس امر کا انکشاف اسرائیل میں سرگرم ایک غیر حکومتی تنظیم “پیس ناو” نے گذشتہ دنوں کیا۔ پیس ناو کے مطابق معالیہ داود یہودی بستی میں چودہ رہائشی یونٹس تعمیر کئے جائیں گے۔
پیس ناو نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ یہودی بستی کی تعمیر مکمل ہونے پر اس میں 104 رہائشی یونٹس بنائے جائیں گے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے راس العامود کالونی “معالیہ زیتیئم” سے مل جائے گی۔ پیس ناو تحریک کے مطابق حالیہ ترامیم کے لئے مقبوضہ بیت المقدس کی بلدیہ سے اجازت لینا ضروری نہیں۔ اس ضمن میں اسرائیلی اور بلدیہ دونوں بے بس نظر آتی ہیں۔
ان رہائشی یونٹس کی تعمیر کے لئے مخصوص اراضی پر راس العامود کالونی کی پولیس چوکی قائم تھی جسے ان دنوں ای – ون زون میں معالیہ ادومیم کی یہودی بستی منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس چوکی کی منتقلی کے بعد اس علاقے کی ملکیت البخاریہ نامی کیمونٹی کو منتقل ہو گئی ہے جو سنہ 1948ء سے قبل اس علاقے میں جائیداد کی مالک تھی۔ منصوبے کے تحت پولیس چوکی کو مسمار کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ سات عمارتیں تعمیر کی جائیں گی، جس میں ہر بلاک چار سے پانچ منزلوں پر مشتمل ہو گا۔
پیس ناو تحریک نے خبردار کیا ہے کہ مشرقی بیت المقدس کے علاقے میں اضافی یہودی بستیوں کی تعمیر نہ صرف حالیہ بلواسطہ مذاکرات کی نفی ہے بلکہ اس ضمن میں ہونے والے پیش آئند مذاکرات کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔