تحریر: محمد جواد اخوان
گذشتہ کچھ ماہ سے خطے میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں عرب لیگ کا اہم اجلاس منعقد ہوا ہے۔ یہ اجلاس خطے میں رونما ہونے والی ان حالیہ حیرت انگیز تبدیلیوں کا ایک مظہر تھا۔ عرب لیگ میں شام کی واپسی سے زیادہ اہم ایشو اس اہم ترین عرب تنظیم میں مسئلہ فلسطین کی دوبارہ واپسی تھی۔ اگرچہ ممکن ہے عرب حکمرانوں کا موقف فلسطینی عوام کے مطالبات اور حقوق سے بہت اختلاف رکھتا ہو لیکن جدہ میں عرب لیگ اجلاس کے اختتامی بیانیے میں “عرب دنیا میں مسئلہ فلسطین کی مرکزی حیثیت ہونے” پر تاکید انجام پانا بذات خود انتہائی اہم نکتہ اور نتیجہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ فلسطین کی آزادی گذشتہ کثیر سالوں سے عرب دنیا پر حکمفرما بنیادی ترین ایشو تھا لیکن بعض عرب حکمرانوں کی غداری کے باعث یہ مسئلہ عرب محافل میں پس پشت ڈال دیا گیا۔
عرب ممالک میں موجود قوم پرست تنظیمیں اور گروہ ہمیشہ سے عرب دنیا کا مقبوضہ حصہ ہونے کے ناطے فلسطین اور فلسطینی عوام کی حمایت کے دعویدار رہے ہیں۔ بعض عرب حکومتوں کی غداری کے نتیجے میں نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ “ابراہیم امن معاہدہ” نامی منصوبے کی آڑ میں غاصب صیہونی رژیم سے سازباز کا عمل خلیج فارس کے جنوب تک کھینچ لائے تھے۔ البتہ اس پوری مدت میں عرب اقوام کا راستہ اپنی حکومتوں سے بالکل مختلف رہا اور وہ بدستور اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی بھرپور حمایت پر اصرار کرتے رہے۔ اگرچہ گذشتہ چار عشروں کے دوران بعض عرب حکومتوں نے فلسطین کاز کو پس پشت ڈال رکھا تھا لیکن انہی ممالک میں موجود عوامی گروہ خاص طور پر عرب دنیا کے روشن خیال اور پڑھے لکھے طبقوں نے کبھی بھی قدس شریف اور قبلہ اول مسلمین کو فراموش نہیں کیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عرب حکومتوں کی جانب سے، جنہوں نے ایک عرصے سے مسئلہ فلسطین نامی حقیقت سے آنکھیں پھیر رکھی تھیں، اچانک مسئلہ فلسطین کو عرب دنیا کا بنیادی ترین مسئلہ قرار دیے جانے کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب اسلامی مزاحمت کی کامیابیوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ تین عشروں کے دوران، خاص طور پر غاصب صیہونی رژیم کے قبضے سے جنوبی لبنان کی آزادی کے بعد خطے کے اکثر سیاست دان “اسلامی مزاحمت” نامی حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں۔ جبکہ اسلامی مزاحمت نے ہمیشہ میدان جنگ میں دشمن کو شکست فاش دے کر اسے اپنے اشاروں پر چلنے پر مجبور کیا ہے۔ جس وقت جنوبی لبنان آزاد ہوا تھا اس وقت عرب دنیا کے اکثر حکمران اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے افسانے پر یقین رکھتے تھے۔
لیکن حزب اللہ لبنان نے اپنے عمل کے ذریعے اس افسانے کے باطل ہونے کو ثابت کر ڈالا تھا۔ 33 روزہ جنگ میں بھی عرب حکومتوں کی اکثریت اعلانیہ طور پر یا ڈھکے چھپے انداز میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ کھڑی تھیں لیکن یہ اسلامی مزاحمت تھی جس نے آخرکار عبری عربی محاذ کے مقابلے میں شاندار فتح حاصل کی۔ اسی طرح غزہ میں اسلامی مزاحمت اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے درمیان رونما ہونے والی تمام جنگوں میں بھی مشابہہ صورتحال سامنے آئی ہے۔ حماس اور اسلامک جہاد نے خالی ہاتھوں سے اسرائیل کی فوجی طاقت کی برتری کو شدید چیلنجز سے روبرو کیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ فلسطین کی جغرافیائی حدود سے باہر بھی اسلامی مزاحمت نے خطے کے حالات پر فیصلہ کن اثرات ڈالے ہیں۔
ایسے وقت جب مغربی طاقتوں کی انٹیلی جنس اور فوجی طاقت نے عرب حکومتوں کی مالی طاقت سے مل کر شام اور عراق کے عوام پر تکفیری عالمی جنگ تھونپ دی تھی، یہ اسلامی مزاحمتی بلاک تھا جس نے خطے کی تقدیر کا پانسہ پلٹا دیا اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو نابود کر ڈالا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ وہی عرب حکومتیں جنہوں نے شام کے صدر بشار اسد کو عرب لیگ سے نکال باہر کیا تھا، سعودی عرب کے شہر جدہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں صدر بشار اسد کا پرتپاک استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح عرب پیسے اور مغربی اسلحہ کا اتحاد گذشتہ سات سال سے دن رات یمن کے مظلوم عوام پر بمب برسانے میں مصروف تھا تاکہ وہ اپنے حق حاکمیت اور اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنے کے حق سے پیچھے ہٹ جائیں، لیکن اسلامی مزاحمت اس منحوس اتحاد کو شکست فاش دینے میں کامیاب رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ خطے کے حالات کی نبض اسلامی مزاحمت کے کنٹرول میں ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے مخالفین چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ اسلامی مزاحمت کا اصل مقصد عراق، شام، لبنان اور یمن میں خطے کی اقوام کو آزادی فراہم کرنا تھا لیکن اس کی سرگرمیوں کا زیادہ اہم نتیجہ “بیداری” کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ ایسے حکمرانوں کی بیداری جنہوں نے ایک عرصے سے خود کو سونے اور آنکھیں بند کرنے کا عادی بنا رکھا تھا۔ اگرچہ گذشتہ طویل عرصے تک صیہونی نیٹ ورک میں پھنسی حکومتوں سے یہ توقع رکھنا بجا نہیں کہ وہ یکدم صیہونیوں کے خلاف صف آرائی شروع کر دیں گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمت کی مسلسل کامیابیوں نے خطے میں بیداری کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایسی علامات دیکھی جا رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ بہت جلد خطے سے مکمل طور پر بے دخل ہونے والا ہے۔