اسلامی تحریک مزاحمت(حماس) کا کہنا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے لئے 14 نئے رہائشی یونٹس کی تعمیر کا اعلان دراصل صہیونی ریاست سے لایعنی بالواسطہ مذاکرات کا گرین سنگل دینے والی تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکٹیو کونسل، اوسلو گروپ اورعرب امن منصوبہ فالو اپ کمیٹی کے منہ پر ایک طمانچے سے کم نہیں۔
اتوار کے روز جاری کردہ ایک بیان، جس کی ایک نقل مرکز اطلاعات فلسطین کو بھی موصول ہوئی، میں حماس نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے پہلے دن مقبوضہ بیت المقدس کے قلب میں یہودیوں کے لئے 14 نئے مکانات کی تعمیر کے اعلان سے تنظیم کا یہ موقف درست ثابت ہو گیا ہے کہ مذاکرات کا آغاز اسرائیل اور یہودی آبادکاری کے منصوبوں کی بلا معاوضہ خدمت کے سوا کچھ نہیں۔
عالمی برادری سمجھتی ہے کہ اسرائیل، فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی اور دہشت گردی کا ارتکاب کررہا ہے، مگر بیان کے مطابق، مذاکرات کی میز سجا کر قابض ریاست کو اپنی تنہائی سے باہر نکلنے اور بین الاقوامی برادری کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔
حماس نے عرب امن منصوبے کی فالو اپ کمیٹی اور پی ایل او کی ایگزیکٹیو کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کا فیصلہ واپس لیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے سرابی وعدوں اور ناکام منصوبوں پر تکیہ نہیں کیا جانا چاہیے۔