تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
ہولو کاسٹ سے مراد ہے یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کے بارے میں صہیونیوں نے جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر دنیا کے سامنے پراپیگنڈا کیا ہے کہ انہ کو سنہ1933سے 1945کے عرصہ کے درمیان جرمن نازیوں نے بری طرح قتل عام کا نشانہ بنایا ہے۔ صہیونیوں نے نازیوں کی جانب سے یہودیوں کے قتل کے واقعات کو منظم سرکاری سرپرستی میں قتل عام کا نام دیا ہے اور اسی وجہ سے اس کو اب ”ہولو کاسٹ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
صہیونی جو دنیا میں پہلے ہی پہلی جنگ عظیم کے شروع کروانے کا موجب تھے انہوں نے ہمیشہ دنیا کے مختلف ممالک میں شورش اور ہنگاموں کے ذریعہ حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش ہاتھ سے جانے نہیں دی ہے۔ خلافت عثمانیہ کا زوال بھی صہیونیوں کی شورش کا شاخسانہ تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں یہودیوں کی بری تعداد موجود تھی۔پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کا اصل موجب بھی صہیونیوں کی وہی تحریک تھی جس کی آڑ میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز کیا گیا تھا۔ حقیقت میں صہیونی دنیا کو جنگ کی آگ میں جھلسا کر صرف اور صرف فلسطین پر قبضہ کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے تا کہ آئندہ خطے میں ان کا اثر رسوخ قائم ہو جائے۔
کہا جاتا ہے کہ جرمن نازی ان تمام یہودیوں اور صہیونیوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور شاید یہی نفرت اس بات کا سبب بنی ہو کہ انہوں نے نے یہودیوں کو جرمنی سے نکلنے کا کہا ہو۔اب جہاں تک ہولو کاسٹ کی بات ہے تو اس عنوان سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک صہیونیوں کا نقطہ نظر ہے جسے امریکی پشتپناہی بھی حاصل ہے۔اسی وجہ سے اقوام متحدہ نے بھی صہیونیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ہولو کاسٹ کا دن منانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ یہ دن ہر سال جنوری کی 27تاریخ کو منایا جاتا ہے۔اس کے بر عکس ایک نقطہ نظر یورپی دنیا میں اور بھی موجود ہے جو کہتا ہے کہ ہولو کاسٹ صہیونیوں کا ایک جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
دوسرے نقطہ نظر کے ماننے والوں کو انسانی حقوق کا مخالف قرار دے دیا جاتا ہے۔ایسے خیالات کے حامل محققین کو آج کی جدید مغربی دنیا میں جیلوں میں بھی ڈال دیا جاتا ہے۔اگر ہر کسی کو اپنی رائے بیان کرنے کا حق حاصل ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ یورپ اور مغرب کی یونیورسٹیز میں آج بھی ہولو کاسٹ پر گفتگو کرنے کی ممانعت کیوں ہے؟ آج بھی اعلی تعلیم میں ہولو کاسٹ کے عنوان پر کوئی تحقیق کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟ مغربی دنیا کا دوغلا اور کھوکھلاچہرہ ہولو کاسٹ کے موضوع پر بہت واضح نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک نقطہ نظر کو باقاعدہ دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہاں ان تمام سوالات میں ایک اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ اگر جرمن نازیوں نے دوسری جنگ عظیم کے عرصہ میں یہودیوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور کچھ یہودیوں کا جنگ میں قتل ہو ابھی ہے تو پر بھی یورپ میں ایک نقطہ نظر یہ کہتا ہے کہ صہیونیوں نے اس طرح کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور اسے اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے دنیا کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہاں پر اگر غور کریں تو یہ بات کسی حد تک درست ثابت ہوتی ہے۔کیونکہ غاصب صہیونیوں نے فلسطین کی ارض مقدس پر تسلط قائم کرنے اور ناجائز صہیونی ریاست کی بنیاد ڈالنے کے لئے اس زمانے میں بھی دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ کیونکہ یہودیوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور لہذا ان کے لئے ایک علیحدہ وطن کا قیام ضروری ہے تاہم اس بنیادپر صہیونیوں نے برطانیہ اور امریکہ سمیت فرانس کی مدد سے فلسطین پر قبضہ قائم کر لیا۔حالانکہ اگر واقعی ہولو کاسٹ کا کوئی وجود جرمنی میں موجو دتھا تو پھر بھی یہ نا انصافی ہے کہ جرمن نازیوں کے جرائم کی قیمت فلسطینی عوام اور مقدس سرزمین فلسطین ادا کرے۔
دور جدید میں ہولو کاسٹ کے بارے میں مطالعہ کرنے پر راقم نے ایک تیسرا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جرمنی میں ہولو کاسٹ ہوئی اور یہودیوں کو بڑی تعداد میں قتل عام کا نشانہ بنایا گیا۔یہودیوں پر ڈھیروں مظالم بھی کئے گئے۔لیکن ان سب مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے پیچھے صہیونیوں کے ہاتھ کارفرما تھا جو ایک طرف جرمنی کو جنگ عظیم میں شکست سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت بیان کر کے فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست کے قیام کے ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔ حقیقت میں یہودیوں کو قتل کروانے میں صہیونیوں کا ہی ہاتھ تھا۔
آج جدید دنیا میں ہولو کاسٹ کے بارے میں بات کرنا ایک جرم تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کوجبری طور پر صرف اور صرف صہیونیوں کا نقطہ نطر ہی پیش کرنا ہوتا ہے۔ورنہ آپ کی زبان بندی کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح یورپ میں موجود ہولوکاسٹ کے بارے میں دوسرے نقطہ نظر پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ان تمام حالات میں ایک عام ذہن میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ کیا واقعی ہولوکاسٹ ہو اہے؟
آج کی دنیا میں اسی سالہ پرانی کہانیوں اور افسانوں کو بنیا د بنا کر عالمی سطح پر دن منانے کے اعلان کئے جا رہے ہیں لیکن کیا اقوام متحدہ اور عالمی اداروں نے کبھی غور کیا ہے کہ باقاعدہ ایک سو سالوں سے فلسطین میں مسلسل ہولو کاسٹ جاری ہے۔ہر گزرتا دن فلسطین کے مظلوموں کے لئے ہولو کاسٹ سے کم نہیں ہوتا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والا ہولو کاسٹ نہ تو اقوام متحدہ کو نظر آ رہا ہے اور نہ ہی نام نہاد عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو لیکن ایک جھوٹ اور افسانہ کی بنیاد پر صہیونیوں کی حمایت میں ہولو کاسٹ پر دن بھی منانے کا پرچار کیا جاتا ہے اور ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے کو بھی جرم قرا ر دیا جاتا ہے۔اس طرح کے اقدامات جہاں اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں وہاں ساتھ ساتھ نام نہاد عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں۔