Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

مصری عقوبت خانوں میں بہیمانہ تشدد کی تفصیلات منظرعام پر

palestine_foundation_pakistan_palestinian-prisoner4

جزیرہ گوانتا نامو میں قائم امریکی سی آئی اے کے عقوبت خانے اورعراق کی ابوغریب جیل کے بعد مصر میں حکومت کے زیرانتظام قائم سرکاری سرپرستی میں چلنے والے عقوبت خانوں میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔

حال ہی میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم “جہاد اسلامی” کے دو اسیر اراکین قاہرہ میں قائم عقوبت خانوں میں دو ماہ کی قید کاٹ کر رہا ہوئے۔ انہوں نے رہائی کے بعد عقوبت خانوں میں ہونے والے بہیمانہ تشدد کے جو دلدوز واقعات بیان کیے انہیں سن کر”ابوغریب ” اور “گوانتانامو” میں ہونے والے تشدد بھی بھول جاتے ہیں۔

رہائی پانے والے جہاد اسلامی کے راہنما درویش الغرابلی نے غزہ پہنچنے پر”عرب خبررساں ادارے” قدس پیس” کو بتایا کہ” اسے مصری جیل میں 51 دن تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ اس دوران انہوں نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہ عراق کی بدنام زمانہ “ابوغریب” اور “گوانتا نامو” کے بدنام زمانہ عقوبت خانوں میں ہونے والے تشدد کو بھی بھلا دیتا ہے، ہر آنے والا دن تشدد کے نئے اندازکے ساتھ شروع ہوتا اور ہر رات تشدد کا ایک نیا حربہ استعمال کیا جاتا”۔

انہوں نے اپنی گرفتاری کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جہاد اسلامی کا چھ رکنی وفد بیرون ملک دورے کے بعد مصر کے راستے غزہ واپس آ رہا تھا، کہ انہیں قاہرہ ایئرپورٹ پر حکام نے روک لیا، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بھاری بیڑیاں ڈال کران کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور ایک فوجی گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ پہلے بتایا گیا کہ ہمیں غزہ کے رفح پھاٹک کی طرف لے جایا جا رہا ہے، کچھ دیر بعد آنکھوں سے پٹی اتار دی گئیں۔ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ہمیں ایک کئی منزلہ عمارت کے تہہ خانے اتار دیا گیا، وہاں چاروں طرف چیخ وپکار کی آوازیں ا ٓرہی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی”قتل گاہ” میں موجود ہیں”

غرابلی کہتے ہیں کہ جب انہیں ایک تفتیشی مرکزمیں منتقل کر دیا گیا تو ان کے ہاتھوں میں لگی ہتھکڑیوں سے انہیں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ موقع پر موجود ایک اہلکار سے کہا کہ وہ ہتھکڑیوں کو کچھ ڈھیلا کرے ، لیکن اس نے ایک نہایت ہی بےہودہ “گالی” دیتے ہوئے ہتھکڑی کے”پیچ” اور ٹائٹ کر دیے، اس کے ساتھ ہی اس نے میرے چہرے اور سینے پر چار مکے مارے، جس سے میرے منہ سے خوان کا فوارا چھوٹ گیا، اس کے ساتھ ہی وہاں پرموجود دیگر تفتیش کاروں نے ہم سب کوننگا کر دیا اور ہمیں بجلی کے جھٹکے لگانا شروع کر دیے۔ بجلی کے جھٹکے جسم کے نازک اعضا پر لگائے جاتے جس سے ہم شدید طور پر نڈھال ہو گئے۔ اس دوران تفتیش کاروں کے نگران نے ایک اہلکار کو کہا کہ وہ تفتیشی کتے لے کر آئے۔

بجلی کے جھٹکوں کے بعد دوسرے مرحلے میں ہم پر کتے چھوڑے گئے جنہوں نے ہمیں خوب بھنببھوڑا، اس کے بعد ہمیں ایک ایسی تنگ اور تاریک کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا جہاں نہ آنکھ کسی چیزکو دیکھ سکتی تھی، نہ کان سن سکتے تھے اور نہ ہی ہماری آواز کسی کے کان تک پہنچ سکتی تھی، جبکہ ہم پرتشدد کے لیے مصری تفتیش کارباریوں کے ساتھ آتے اور کتوں کے ساتھ خود بھی وحشیانہ تشدد کرتے، بکواس بکتے اور گالیاں دیتے۔

غرابلی نے بتایا کہ انہیں تفتیش کے دوران جن کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا تھا ان کے فرش آلودگی سے بھرپور تھے اور وہ موذی جانوروں کا مسکن معلوم ہوتے تھے، تشدد کے ساتھ ساتھ انہیں جس قسم کی کوٹھڑی فراہم کی گئی تھی وہ بھی بدترین تشدد کی ایک شکل تھی۔

ظالم تفتیش کارگرفتاری کے بعد 20 روزتک روزانہ پانچ گھنٹے تشدد کرتے، دو گھنٹے دن کے وقت تشدد کیا جاتا جبکہ تین گھنٹے رات کے اوقات میں۔ اور ہر سوال پر ایک بجلی کا جھٹکا لگایا جاتا۔ جبکہ لاٹھیوں، کوڑوں اور مکوں سے کیا جانے والا تشدد اس سے ہٹ کر تھا۔

دوران تفتیش عجیب وغریب قسم کے سوالات پوچھےجاتے اور ان سے ان کا اعتراف کرانے کے لیے تشدد کیا جاتا۔

غرابلی کہتے ہیں کہ “وہ حیران ہیں کہ کس طرح کے عجیب وغریب قصوں کے بارے میں ان سے اعترافات کرانے کے لیے وحشیانہ تشدد کیا جاتا”۔

مصری تشدد کا نشانہ بننے والے فلسطینی کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں ان سے ہونے والے تشدد میں ایسے لگتا تھا کہ ان سے تشدد اور پوچھ گچھ کرنے والے مصری نہیں بلکہ امریکی یا صہیونی انٹیلی جنس کے حکام ہیں، کیونکہ انہیں جس نوعیت کے سوالات پوچھے جاتے اس کی توقع کم ازکم مصری حکام سے نہیں کی جا سکتی، یا وہ مصری حکام کے لیے غیر ضروری ہیں۔

مثال کے طور پر مصری تفتیش کار ان سےجہاد اسلامی کے راہنما رمضان عبداللہ الشلح کے بارے میں سوالات پوچھتے، جن میں ان کی جسامت، رنگت، وضع قطع، حلیہ، گاڑی کا نمبر، جو گاڑی ان کے استعمال میں تھی، اس کا رنگ، ان کے اہم ٹھکانے اور نقل وحرکت اور کام کے اوقات جیسے سوالات زیادہ اہم ہوتے۔

اس کے علاوہ مجاہدین کے پاس موجود اسلحہ کی نوعیت، راکٹوں کی تعداد، ان کے ذخیروں کے مقامات، اہم مزاحمتی راہنماؤں کے رابطہ نمبر اور ان ٹھکانوں کی معلومات اورغزہ اور مصرکے درمیان تعمیر کی جانے والی زیرزمین فولادی دیوارکے بارے میں ان کی رائے معلوم کرتے۔ تفتیش کے دوران مصری حکام نے ان سے حماس کے ہاں قید صہیونی فوجی گیلاد شالیت کے ٹھکانے کے بارے میں کئی سوالات کیے۔ تفتیش کار حماس کی قیادت کو بھی گالم گلوچ کا نشانہ بناتے اورکہتے کہ حماس نے پوری قوم کو تباہ کر دیا ہے۔

درویش غرابلی نے کہا کہ 51 دن تک انہوں نے جوکچھ مصری جیل میں دیکھا اورجو مظالم برداشت کیے، انہیں وہ قیامت تک نہیں بھلا سکتے، مصری تفتیش کاروں کے پاس بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے تشدد سب سے اہم حربہ سمجھاجاتا اور ہماری اسیری کے دوران اس کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ بجلی کے کرنٹ نازک اعضا، اعضاء تناسل، چہرے اور سینے پر لگائے جاتے، جس سے کئی کئی گھنٹے وہ بے ہوش رہتے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے تئیس دن تک انہیں ایک منٹ کے لیے سونے کی اجازت نہیں دی گئی اور پینتیس دن کے بعد ایک ان انہیں صرف تین منٹ کے لیے نہانے کی اجازت ملی۔ غرابلی نے اپنے انٹرویو میں مصری حکومت اور تفتیشی اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے امریکی اور صہیونی انٹیلی اداروں کی صف میں شامل کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصر ہمیں بتائے آج تک انہوں نے ایسا کون سا کام کیا جو مصر کے لیے کسی بھی نوعیت کے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ کس جرم کے تحت ان دو ماہ تک بہیمانہ تشدد کیا گیا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan