مقالے میں اسرائیل میں نئی وجود میں آنے والی حکومت اور اس کے مستقبل کےممکنہ اقدامات کا جائزہ پپیش کیا ہے۔
اس جائزہ رپورٹ کو “25 ویں کنیسٹ کے انتخابات کے نتائج اور اگی حکومت کی ہدایات کا مطالعہ۔” کا عنوان دیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ڈاکٹر مہند مصطفی کارمل سینٹر کے ڈائریکٹر جنرل – حیفا اور بیٹ برل کالج کے عرب اکیڈمک انسٹی ٹیوٹ میں شعبہ تاریخ کے سربراہ نے تیار کی تھی۔
اسرائیلی انتخابات میں نیتن یاہو کے دائیں بازو کے کیمپ کی واضح کامیابی کے ساتھ نیتن یاہو سے توقع ہے کہ وہ اپنے قوم پرست اور مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کے کیمپ کے اندر سے اپنی چھٹی حکومت بنائیں گے۔
جائزہ رپورٹ میں توقع کی گئی ہے کہ نیتن یاہو حکومت اور انتظامی کام کو مضبوط کرنے کے حق میں عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ عرب کمیونٹی پرجبر کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے سکیورٹی بہانوں کے تحت مقامی “ملیشیاؤں” کی تشکیل کی اجازت دے سکتے ہیں۔ وہ مذہبی جماعتوں کے تعلیمی اداروں کے لیے مالی امداد حاصل کرنے سے متعلق متعدد مطالبات کو پورا کریں گے۔ “حلال” یہودی کھانا (کوشر) اور وہ شراکت داروں کو داخلی امور سے متعلق وزارتیں دیں گے۔
جائزے میں یہ بھی توقع کی گئی ہے کہ آباد کاری اور یہودیت کے پروگراموں کی رفتار بڑھے گی۔ خاص طور پر القدس اور مسجد اقصیٰ میں، آباد کاری میں تیزی آئے گی فلسطینی اتھارٹی کے کردار کو محدود کیے جانے کا امکان ہے۔
Must Read
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو خارجہ تعلقات کی فائل کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے اور خطے میں نارملائیزیشن کا عمل آگئے بڑھائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو کے کیمپ نے ان انتخابات میں 64 نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ چار انتخابی ادوار میں بار بار ناکامی کے بعد وہ میں ماضی میں 61 نشستوں تک محدود تھے۔
یہ کیمپ لیکود پارٹی، حریدی مذہبی جماعتیں (شاس اور تورات یہودیت،”مذہبی صیہونیت” پارٹی پر مشتمل ہے جس کی سربراہی بزالیل سموٹریچ اور مذہبی صیہونیت پاور پارٹی کے سربراہ ایتمار بن غفیر پر مشتمل ہے۔ .
مارچ 2021 کے انتخابات کے مقابلے نیتن یاہو کے کیمپ کی نمائندگی میں 12 نشستوں کا اضافہ ہوا۔ گذشتہ جب کیمپ کی سیٹوں کی تعداد باون تک محدود تھی۔