امریکی- کینیڈین “مسیح کے پیروکار” چرچ نے اپنے سینیر سرکاری رہ نماؤں کے دستخط شدہ ایک پادری کے خط میں کہا ہے کہ اسرائیلی پالیسیاں اور طرز عمل فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے اقدامات نسل پرستی کے جرم کی بین الاقوامی تعریف کے مطابق ہیں۔
چرچ کے رہ نماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ قابض ریاست مسلسل فلسطینیوں کے حقوق کی نفی کرتی ہے۔ فلسطینیوں کی طرف سے برداشت کی جانے والی ناانصافی تمام لوگوں کے لیے انصاف کے خدا کے نظریے کے بارے میں ہماری سمجھ سے مطابقت نہیں رکھتی اور اس لیے یہ ایک گناہ ہے۔
ریاستہائے متحدہ اور کینیڈا میں اس چرچ کے ارکان کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے اور اس میں تقریباً 3,700 چرچ ہیں جن میں سے زیادہ تر بڑے شہروں سے باہر پھیلے ہوئے ہیں۔
خط میں امریکا کی طرف سے گولان کی پہاڑیوں پراسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنے، مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی توسیع کے ذریعے زمینوں اور جائیدادوں کے حقیقی الحاق پر خاموشی، فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری اور بے دخلی، آبادکاروں کی تعداد میں اضافے کی مذمت کی گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا خود کو یہودی ریاست قرار دینے سے عرب شہریوں کےساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور یہودیوں کو دوسری قومیتوں پر برتری حاصل ہوجاتی ہے۔