اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی برائے مہاجرین فلسطین “اونروا” کے ڈائریکٹر جان گنگ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں سامان کی رسد پر لاگو اسرائیلی شرائط میں تھوڑی سی نرمی ناکافی اور اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ گنگ نے اس ضمن میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے محاصرہ کردہ غزہ کی پٹی میں ضروریات زندگی کی رسد پر شرائط میں کی جانے والی تخفیف اگرچہ خوش آئند ہے مگر یہ تخفیف ڈیڑھ لاکھ سے زاتد فلسطینیوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ گنگ نے واضح کیا کہ اس وقت اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ اٹھارہ ماہ قبل ہونے والی جنگ کے نتیجے میں تباہ حال اسکولوں کو فی الفور تعمیر کیا جائے۔ انہوں نے کہ اونروا اس قابل نہیں کہ ہزاروں فلسطینی بچوں کو اسکول واپس لا سکے بالخصوص اس صورت میں جب غزہ میں تین سال سے کوئی نیا سکول تعمیر نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہر ماہ ایلومینیم کے 25 ٹرک غزہ میں داخلے کی اجازت قابل تحسین عمل ہے۔ اس پابندی کے خاتمے سے مادی فوائد کے ساتھ نفسیاتی طورپر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ موجودہ اسرائیلی اقدام سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ آئندہ دیگر اشیاء کے داخلے پر پابندیاں بھی ختم کی جا سکتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے گنگ کا کہنا تھا کہ نکاسی آب اور پانی کی فراہمی کے تباہ شدہ انفراسٹرکچر سے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں داخلی اور خارجی تجارت کے نہ ہونے کی وجہ سے معاشی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ تجارت سرگرمیوں کی اجازت کے بغیر علاقے کی اقتصادی بحالی ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی مادی اور نفسیاتی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال آخر کب ختم ہوگی۔ انہوں نے عوام کی مصائب کو کم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: لوگوں کے مسائل سیاسی انداز میں حل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اگر ہم عوام کو ترجیح دینا شروع کر دیں اور ان کی ضروریات پر اپنی توجہ مرکوز کرلیں تو اس سے سیاسی عمل کے آگے بڑھنے میں بہت مدد ملے گی، لیکن اگر ہم نے لوگوں کو مایوسی اور تباہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پڑے رہنے دیا تو مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بگڑنا شروع ہو جائیں گے۔