Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Uncategorized

اسرائیل فیس بک اور دیگر سوشل / سماجی نیٹ ورکس کے ذریعے اطلاعات اور معلومات اکٹھی کرتا ہے اور جاسوس بھرتی کرتا ہے

palestine_foundation_pakistan_facebook

آج کی دنیا میں انٹرنیٹ سے سروکار رکھنے والے تقریباً تمام مسلم نوجوان مختلف اہداف و مقاصد کی خاطر انٹرنیٹ گروپ تشکیل دیتے ہیں یا کسی گروپ کے ممبر بن جاتےی ہیں۔ حال ہی میں فیس بک کی ممبرشپ عمومی رجحان بن کر رہ گئی ہے اور انٹرنیٹ صارفین نہ صرف خود فیس بک کی ممبرشپ حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنے یاروں، دوستوں اور عزیزوں یا دیگر کو بھی ممبرشپ کی دعوت دیتے ہیں کیوں کہ فیس بک کے ذریعے رابطہ کرنا، تبادلہ خیال کرنا، دوستی بڑھانا، تبلیغ کرنا، تفریح کرنا و غیرہ بہت آسان ہے تا ہم کسی نے شاید کم ہی اپنے آپ سے پوچھا ہو کہ فیس بک اتنی ساری سہولیات کیوں فراہم کرتا ہے؟ کیا فیس بک نیٹ ورک صرف اس لئے فراہم کیا گیا ہے کہ دنیا والوں کو خالصتا ایک مواصلاتی ذریعہ بطور مفت یا بعنوان خیرات طور پر فراہم کرنا چاہتا ہے؟ یا یہ کہ اس نیٹ ورک سے بعض لوگ عظیم ترین فوائد اٹھارہے ہیں اور صارفین صرف اور صرف غفلت کی وجہ سے اپنے تمام راز و رمز ان کے سپرد کردیتے ہیں؟

یہ جذباتی نعروں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ حقائق پر مبنی رپورٹ ہے جو مسلم نوجوانوں ـ خاص طور پر اردو صارفین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے؛ توجہ فرمائیں:

انٹیلی جنس امور کے ایک اسرائیلی ماہر نے کہا ہے کہ “اسرائیل فیس بک اور دیگر سوشل / سماجی نیٹ ورکس کے ذریعے اطلاعات اور معلومات اکٹھی کرتا ہے اور جاسوس بھرتی کرتا ہے!۔

“ایران میں خفیہ جنگ” نامی کتاب کا مؤلف اور صہیونی روزنامے ایدیئوت آہرونات کے سیاسی و فوجی امور کا تجزیہ نگار “رونن برگمین” کہتا ہے: انٹرنیٹ میں سماجی نیٹ ورکس کی نگرانی کرنا، کم از کم توقع ہے جو انٹیلی جنس سروسزسے کی جاسکتی ہے؛ اسرائیل ذاتی معلومات و کوائف سے ـ جو انٹرنیٹ میں بوفور پائے جاتے ہیں ـ ایسے افراد کا سراغ لگاتا ہے جو اس ریاست کے لئے ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور اگر آج سے 50 برس بعد شین بیتھ کی خفیہ فائلیں کھول دی جائیں تو معلوم ہوگا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز اور اسرائیلی افواج کے انٹیلی جنس شعبے کے زیر استعمال جاسوسی کے وسائل ان حساس آلات سے کہیں زیادہ متنوع اور مختلف النوع ہیں جو جیمز بانڈ کی تخیلاتی فلموں میں نظر آتے ہیں تا ہم یہ نئی روش بہت مفید اور آسان ہے۔

برگمین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ صارفین کی ذاتی معلومات حاصل کرکے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تا کہ اگر وہ جاسوسی کی صلاحیت رکھتے ہوں تو اسرائیل کے لئے جاسوسی کریں اور یہ روش بڑی حد تک مؤثر ہے اور کئی لوگ کچھ دنوں میں جاسوسی کے لئے تیار ہوجاتے ہیں گوکہ اسرائیلی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ یہ روش لمبے عرصے کے لئے جاسوس بھرتی کرنے کے لئے زیادہ مؤثر نہیں ہے اور اس روش پر جاسوسی کے لئے آمادہ کئے جانے والے افراد طویل عرصے تک اسرائیل کے لئے کام نہیں کرسکتے!!!۔

شاید برگمین یہ کہنا چاہتا ہو کہ جن افراد کو انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوس کے عنوان سے بھرتی کیا جاتا ہے حقیقی دنیا میں بھی ان کا تعاقب کیا جائے اور انہیں باقاعدہ جاسوس بنایا جائے تا کہ طویل عرصے تک اسرائیل کی خدمت کرسکیں اور عالم اسلام پر صہیونی تسلط کے سلسلے میں اسرائیل کا ہاتھ بٹائیں!

یہ رپورٹ برگمین ہی کے حوالے سے بی بی سے نے بھی شائع کی تھی اور بی بی سے نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ اسرائیل فیس بک کے ذریعے جاسوس اور مخبر بھرتی کرتا ہے۔ بی بی سے نے غزہ اور فلسطین میں فیس بک کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ عرصے سے مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر اسرائیل کے لئے ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک اسرائیل کے لئے جاسوسی کررہا تھا جبکہ قدیم الایام سے اسرائیل کے لئے جاسوسی کرنے والے افراد بہت جلد رسوا ہوکر پکڑے اور مارے جاتے تھے اور حماس کی حکومت بھی جن جاسوسوں کو پکڑتی ہے انہیں فوری طور پر پھانسی دے دیتی ہے۔ چنانچہ برگمین کا کہنا ہے کہ وہ وسائل اور امکانات جو تاریخ کے دوران اسرائیل کی مدد کے لئے بروئے کار لائے جاسکتے تھے اس وقت دستیاب نہیں ہیں [یعنی کوئی فلسطینی جاسوسی کے لئے تیار نہیں ہوتا] چنانچہ اسرائیل کی جاسوسی ایجنسیوں نے نئی روش اپنائی ہے اور انٹرنیٹ میں سماجی نیٹ ورکس کو استعمال کررہی ہیں۔

البتہ فیس بک کی انسانی ہمدردی اسرائیل کے لئے جاسوسی کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ حال ہی میں اسرائیل کے سدا بہار وفادار دوست ـ برطانیہ ـ کے وزیر صحت نے بھی الزام لگایا ہے کہ فیس بک آلودہ اور ناجائز جنسی تعلقات کو فروغ دے کر خاص طور پر لندن میں آتشک سمیت جنسی تعلق سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں کی ترویج کر رہا ہے۔

فرانس کے یہودی روزنامے «لومیگزین دو یسرائیل نے بعض دستاویزات شائع کرکے انکشاف کیا ہے کہ “فیس بک” اسرائیل کا جاسوسی نیٹ ورک ہے جو اسرائیل کے لئے ایجنٹ اور جاسوس بھرتی کرتا ہے اور یہ وہ ذمہ داری ہے جو اسرائیل نے اس کو سونپ دی ہے۔

البتہ یہاں ایک بات کا اضافہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ فیس بک اسرائیلی موساد کے علاوہ سی آئی ای اور اسرائیل کی خدمت میں مصروف دیگر عالمی ایجنسیوں کی خدمت بھی کرتا ہے۔

فارس نیوز ایجنسی کے مطابق فرانس کے یہودی روزنامے “لوماگازین دو یسرائیل” نے بعض مستند دستاویزات کی روشنی میں فیس بک ویب سائٹ کے پس پردہ حقائق سے پردہ اٹھا کر نئے حقائق کا انکشاف کیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل موساد اور امریکی سی آئی آے نے ـ ٹارگٹ ممالک ـ میں جاسوسی کرنے اور کرانے کی غرض سے اس ویب سائٹ کی بنیاد رکھی ہے اور اسرائیل اور امریکہ ـ اسرائیلی جاسوسی روشوں کی بنیاد پر ـ عام صارفین سے جاسوسی کرواتے ہیں جو اس کام کے خطرات سے ناواقف ہیں۔

یہ روزنامہ لکھتا ہے: انٹرنیٹ پر ـ نہ جانتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے والے افراد ـ تصور کرتے ہیں کہ “انھوں نے چیٹ روم میں اپنا تھوڑا سا وقت ہی ضائع کیا ہے اور یہ اتنی اہم بات نہیں ہے بلکہ کبھی تو وہ اس کو ایک لطیفہ تصور کرلیتے ہیں۔

فرانس کے اس یہودی روزنامے نے لکھا ہے: ہمیں اسرائیل کے ہاتھوں فیس بک کے ذریعے حاصل کی جانے والی بعض اہم معلومات “نہایت مطلع اور آگاہ” افراد سے حاصل ہوئی ہیں۔

اس روزنامے نے فیس بک کے انتظام میں اسرائیلی کردار کی سطح کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں اور بات یہاں تک پہنچی ہے کہ پیرس میں مقیم صہیونی سفیر نے الزام لگایا ہے کہ “مذکورہ یہودی روزنامے نے اسرائیل کے خفیہ راز افشاء کردیئے ہیں اور یہ راز دشمن کے سامنے فاش نہیں ہونے چاہئیں”۔

تا ہم لوماگازین نے اسرائیل کے اس اقدام اور فیس بک سے ناجائز فائدہ اٹھانے کو انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کا نام دیا ہے۔

لوماگازین نے اپنی دستاویزات کی روشنی میں لکھا ہے کہ “اسرائیلی ریاست فیس بک کے ذریعے عالم عرب اور عالم اسلام میں اس ویب سائٹ کے صارفین کے ذاتی کوائف و اطلاعات حاصل کرلیتی ہے اور مسلم نوجوانوں کی یہ ذاتی معلومات موساد، شین بیتھ اور دیگر ایجنسیوں کے لئے کام کرنے والے علم النفس کے ماہرین کے سپرد کرتی ہے۔

ادہر معروف نفسیات شناس اور پرووانس یونیورسٹی میں علم النفس کے پروفیسر اور “انٹرنیٹ کے خطرات” نامی کتاب کے مصنف “جیرلڈ نیرو” نے فیس بک پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ “میری کتاب میں جن نیٹ ورکس کی پس پردہ کاروائیاں فاش کردی گئی ہیں، ان نیٹ ورکس کا حصہ ہیں جن کا انتظام اسرائیلی نفسیاتی ماہرین کے ہاتھوں میں ہے اور ان کا مقصد یہ ہے کہ تیسری دنیا ـ بالخصوص عرب اسرائیل تنازعے کے متعلقہ علاقوں اور جنوبی امریکہ میں رہنے والے نوجوانوں کی شناخت حاصل کرنا اور ان کی صلاحیتوں کی درجہ بندی کرنا اور انہیں اسرائیلی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے۔

علم النفس کے اس استاد کا کہنا ہے: انٹرنیٹ صارفین میں سے بعض کا خیال ہے کہ “جب کوئی شخص چیٹ روم اور انٹرنیٹ کی دنیا میں آپ کے سامنے بیٹھا ہو اور مخالف جنس کے عنوان سے آپ سے بات کررہا / رہی ہواس پر سیاسی سرگرمی کا الزام لگانا درست نہیں ہے چنانچہ اطمینان سے نہیں کہا جاسکتا کہ ماحول جاسوسی کے لئے بالکل سازگار ہے حالانکہ فیس بک جیسی ویب سائٹس میں مصروف عمل افراد اس میں جنسی یا تفریحی گفتگو کا حربہ استعمال کرکے آپ کے ذہن و دل اور نفسیات کے اندر رسوخ کرجاتے ہیں اور یہ انسان انٹرنیٹ کی دنیا سے باہر آپ کے اتنے قریب کبھی بھی نہیں بیتھ سکتے یا باہر کی حقیقی دنیا میں آپ ان کے اتنی قریب نہیں جاسکتے۔ وہ آپ کے کمزور نقاط اور آپ کی قوت کے نقاط کو اسی بات چیت اور چیٹ کے ذریعے بھانپ لیتے ہیں اور آپ کو بلیک میل کرتے ہیں اور آپ سے جاسوسی کرواتے ہیں”۔

گویا وہ ان حربوں کے ذریتے آخر کا آپ کو اپنا بنالیتے ہیں اور آپ اپنوں سے غیر ہوکر ان کے اپنے بن جاتے ہیں اور دنیا کے ہولناک ترین جاسوسی نیٹ ورکس کے رکن بن جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ آپ سے باقاعدہ جاسوسی کروائیں بلکہ چیت کے دوران آپ کے ساتھ جنسی یا تفریحی یا حتی علمی یا سائنسی گفتگو کرتے ہوئے بھی آپ سے بہت سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایک ہم عقیدہ اور ہم خیال فرد کے عنوان سے آپ سے بعض معلومات حاصل کرنا چاہیں اور آپ بھی بصد شوق اس کی آرزو برآوردہ کردیں یا حتی عین ممکن ہے کہ آپ سے گفتگو کرنے والا فرد بھی آپ کی طرح ناآگہی کا شکار ہو اور نیٹ ورکس کے مالکین آپ کے درمیان مخلصانہ گفتگو سے اپنے مقصد کی معلومات حاصل کریں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جن معلومات کا تبادلہ کررہے ہیں وہ آپ کے خیال میں بالکل غیر اہم ہوں لیکن ان کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہوں۔

ماہانہ پوری دنیا میں دس لاکھ سے زائد افراد فیس بک ویب سائٹ میں ممبر بن جاتی ہیں لیکن اس میں ذاتی کوائف و معلومات اور پرائویسی کے تحفظ کا حال دیکھئے کہ فیس بک کے مالکین یہ تمام اطلاعات و معلومات مکمل طور پر فاش کرکے یاھو، گوگل اور دیگر سرچ انجنوں کے سپرد کردیتے ہیں ان معلومات و کوائف میں صارفین کا نام، پتہ ٹیلی فون نمبر، بایوڈیٹا وغیرہ شامل ہیں اور فیس بک والے یہ “خدمت” عالمی گائیڈ کی تشکیل کی دوڑ میں دوسرے نیٹ ورکس سے آگے نکلنے کی غرض سے کرتے ہیں۔ اور ہاں یہ معلومات صارفین کے انٹرنیٹ سے وابستہ قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے کوائف پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روزانہ تقریبا دو لاکھ افراد پوری دنیا میں فیس بک سے استفادہ کرتے ہیں۔

فیس بک کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس وقت اس ویب سائٹ کے اراکین کی تعداد “چار کروڑ بیس لاکھ” ہے۔ لوماگازین دیسرائیل کے انکشافات 9 اپریل 2008 کو اردن کے روزنامے “الحقیقۃ الدولیۃ” کی رپورٹ سے مطابقت رکھتے ہیں۔

الحقیقۃالدولیۃ نے “خفیہ دشمن” کی عنوان سے مرتب کردہ مفصل رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نیٹ ورکس کی صورت میں چلنے والی ویب سائٹوں کے منتظمین اپنے صارفین کے کمزور نقاط سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور وہ ان ہی نقاط کی روشنی میں منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ مثلاً وہ معاشرتی آزادی، نوجوانوں کے مسائل، عورتوں کے مسائل وغیرہ جیسے موضوعات پر بحث شروع کرتے ہیں اور نشانے پر لئے ہوئے صارفین کے سامنے مجازی دنیا میں ایک ایسا روشن مستقبل رکھ دیتے ہیں جو صارفین کے لئے بالکل قابل حصول نظر آنے لگتا ہے اور موقع مناسب ہو تو ان سے استفادہ کرتے ہیں جیسا کہ مصر میں بھی ایسا ہی ہوا۔

فیس بک نے مصری نوجوانوں کو ذہنی طور پر تیار کیا اور پھر ان سے کہا کہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی کریں۔ اور ہاں! حال ہی میں ایران میں امریکہ، اسرائیل، جرمنی، برطانیہ، فرانس، بی بی سی، ٹویٹر، فیس بک اور گوگل نے مل کر ایران میں بھی کلرڈ ریوالوشن کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی اور عظیم ترین، شفاف ترین اور منصفانہ ترین صدارتی انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے آٹھ ماہ تک دارالحکومت تہران میں بلوے کرائے اور یہ بلوے البتہ عوامی حمایت نہ ہونے کے باعث بے نتیجہ رہے لیکن جہاں تک فیس بک، ٹویٹر، اور بی بی سے اور العربیہ نیٹ ورکس اور ان کے مالکین کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنی پوری کوشش کردی۔

چنانچہ مسلم نوجوانوں کو جتنی ہوشیاری اور بیداری کی آج ضرورت ہے اتنی کبھی بھی نہ تھی اور شیشے کی اس دنیا میں اپنے اور اپنے ملکوں اور عالم اسلام کے مفادات کی حفاظت بیداری اورکیاست کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

کیا آپ فیس بک کے رکن ہیں؟ کیا آپ نے اپنے دوستوں کو رکنیت کی دعوت دی ہے؟

اور یہ کہ کیا فیس بک اور ٹویٹر کے مذکورہ بالا حقائق سے آگہی کے باوجود اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں ایک دوسرے کو بیداری کی دعوت نہیں دینی چاہئے؟

ہوشیار! رنگا رنگی، تفریح، جنسی لذتیں ـ اور وہ بھی مجازی دنیا میں ـ ، کہیں آپ کو اسلام دشمن طاقتوں کے جال میں نہ پھنسائیں!

یاد رکھیں کہ آپ کے ساتھ انٹرنیٹ کی غیر حقیقی دنیا میں گفتگو اور بات چیت کرنے والا شخص وہی نہیں ہے جو آپ کو بتا رہا ہے؛ اگر آپ مرد ہیں تو وہ عورت بن کر آپ سے بات چیت کرتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ وہ کوئی نفسیات شناس ماہر انٹیلی جنس افسر ہو۔

آپ کے پاس قرآن و اسلام اور پیغمبر اسلام اور اہل بیت اطہار (ع) کی تعلیمات موجود ہیں، آپ رنگوں کی اس مجازی دنیا کے منتظمین سے افضل و برتر ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مجازی دنیا آپ کو غلامی پر آمادہ کرے! گو کہ آپ کو آج تک پسماندہ رکھا گیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ آپ ہی نے اس دنیا کو مدنیت سے روشناس کرایا تھا!

یاد رکھیں کہ دشمن ایک طرف سے سخت جنگ اور دہشت گردی کے ذریعے آپ کا خون کررہا ہے اور دوسری طرف سے ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کے ذریعے آپ کے خلاف نرم جنگ میں مصروف ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ دشمن بھی آپ ہی کی طرح زد پذیر ہے اور آپ اسی انٹرنیٹ سے استفادہ کرکے اسلام کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں جس کے لئے کمربستہ ہونا ۔ آپ مسلم نوجوانوں ہی کا کام ہے۔ پس کمر باندھ لیں اور اپنی زد پذیری کو دشمن پر وار کرنے کی قوت میں بدل دیں۔ یقین کریں آپ یہ سب کچھ کرسکتے ہیں صرف توکل اور ارادے کی ضرورت ہے۔

………….

مصری علماء کا فتوی:

مصر ی علماء نے فیس بک کے خلاف فتویٰ جاری کردیا

قاہرہ :مصر کے علماء دین نے نیٹ ورکنگ انٹرنیٹ سائٹ فیس بک کے خلاف فتویٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانے والا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ مصر کے عالم دین شیخ عبدالحمید العطرش نے کہا ہے کہ مشہور سماجی نیٹ ورکنگ سائٹ کا استعمال حرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک کی ایجاد کے بعد سے طلاقوں کی شرح میں اضافہ کے ساتھ شادی شدہ افراد میں بے وفائی بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک سے خاندان تباہ ہو رہے ہیں کیونکہ یہ جوڑوں کو شادی سے ماورا دوسروں سے تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزادئی دیتی ہے جوکہ شریعہ کے خلاف ہے۔ عبدالحمید العطرش جوکہ قاہرہ کی الاظہر یونیورسٹی کے سابق سربراہ بھی رہ چکے ہیں‘ نے مزید کہا کہ فیس بک کی وجہ سے مسلم خاندانوں کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ گھر کا ایک فرد باہر کمانے جاتا ہے تو پیچھے دوسرا آن لائن گپ شپ کرکے نہ صرف شریعہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ اپنا وقت بھی ضائع کرتا ہے۔ انہوں نے مصر میں ہونے والی پانچ طلاقوں کا حوالہ دیا جو فیس بک کے استعمال کی وجہ سے اختلافات پیدا ہونے پر واقع ہوئیں۔ العطرش نے کہا کہ سیٹلائٹ ٹی وی کی طرح فیس بک دو دھاری تلوار ہے اس لئے اس کو استعمال کرنے والا گناہگار ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan