ٓاسلام آباد ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) مشاہد حسین سید نے کہا ہےکہ پاکستان کو صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ جو گذشتہ 14 سالوں سے غیر قانونی ناکہ بندی کا شکار ہے اس کی ناکہ بندی ختم کرانے میں اپنا کردار اداکرناچاہئے۔
چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا ، اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتےہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے مقبوضہ فلسطین کے حق میں دھواں دار تقریر کی اور ایوان کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا ہے کہ کافی دنوں کے بعد ایوان میں ایک انتہائی اہم مسئلے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ہے جس میں حزب اختلاف ارو حزب اقتدار دونوں کی جانب سے کوئی اختلاف نہیں پایا گیا ۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں چار معاملے ، مقبوضہ کشمیر ، مقبوضہ فلسطین ، پاکستان کا جوہری پروگرام اور سی پیک ایسے ہیں جس پر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ، مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے جراتمندانہ پالیسی کا اعلان کیا ، قائد اعظم محمد علی جناح نے مقبوضہ کشمیر کو شہہ رگ سےقراردیا تھا جبکہ مقبوضہ فلسطین پر 100 سال پرانہ مؤقف ہے 1920 آل انڈیا مسلم لیگ نے فلسطین کیلئے پہلا میڈیکل مشن روانہ کیا تھا قائد اعظم اور مفکرپاکستان علامہ اقبال فلسطین کے حوالے سے بالکل واضح مؤقف رکھتے تھے ۔
انھوں نے وزیراعظم عمران خان کو مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم محمدعلی جناح کے مؤقف کو آگے بڑھانےپر مبارکباددیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کچھ آوازیں ضرور آئیں تھی تاہم وزیراعظم کے واضح مؤقف اور پاکستانی عوام کی جانب سے ان کو مستردکرنے کے بعد وہ سب آوزیں دفن ہوگئیں۔
انھوں نے مسئلہ فلسطین پر عالمی برادری کی خاموشی کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ حالیہ اسرائیلی دہشتگردی پر صرف چار ممالک پاکستان ، ترکی ، قطر اور ایران نے مضبوط انداز میں فلسطینیوں کے حق میں بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی ۔
اپنی تقریر میں انھوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکو فلسطین کے معاملے پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان واحد غیر عرب ملک تھا جس نے 1973 میں عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا اور پاکستانی پائیلٹس نے دو اسرائیلی جہازوں کو مار گرایا تھا
انھوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے 1967 کی جنگ پاکستانی پائیلٹ بھیجے جنھوں نے چار اسرائیلی جہاز گرائے یہ واقعات بتاتے ہیں کہ ہمارے مقبوضہ فلسطین کے ساتھ گہرے تاریخی تعلقات ہیں ۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے امیر قطر کے جراتمندانہ اقدام کی تعریف کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ امیر قطر نے مقبوضہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ سے ملاقات کی وہ اسماعیل ھنیہ جس کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دہشتگرد قرار دیتے ہیں انھوں نے ان سے ملاقات کرکے اعلان کیا کہ غزہ میں اسرائیلی دہشتگردی سے ہونے والے نقصان کی دوبارہ تعمیرات کے سارے اخراجات قطر برداشت کرے گا مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ ایک غیرمعمولی اور انتہائی بہادری کا اقدام ہے ۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو ایک جیسے نوعیت کا قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں کی صورتحال ایک جیسی ہے ، مقبوضہ فلسطین میں فاشسٹ نیتن یاھو ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں فاشسٹ مودی ہے دونوں نے ہی ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے ۔
انھوں نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے امریکی نشریاتی ادارے “سی این این” کو دیئے گئے انٹر ویو کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ سی این این کی میزبان نے زیادتی کی انھوں نے ہم پر اینٹی سیمٹی ازم کا الزام لگایا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے انسانیت کے خلاف ہونے والی ذیادتی یورپ کے مسیحیوں یہودیوں کے ساتھ کی تھی ہم مسیحیوں اور یہودیوں کو اہل کتاب مانتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ یہ ایک منظم پروپیگنڈا ہے کہ جو کوئی بھی اسرائیل کی دہشتگردانہ پالیسی پر تنقید کرے اس کو یہودیوں سے تعصب قرار دے دیا جائے ۔
انھوں نے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے ہمیں کچھ اہم فیصلے کرنا پڑیں گے جس میں سب سے اہم فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کو تسلیم کرنا ہے کیونکہ حماس کو فلسطینی عوام کی حمایت حاصل ہے اور وہ انتخابات میں عوامی حمایت سے کامیاب ہوچکی ہے ۔
انھوں نے ہاؤس کو بتایا کہ سنہ 2006 میں فلسطین کی تاریخ کا سب سے شفاف الیکشن ہوا تھا جس میں حما س کی جانب سے محمود الزہار کامیاب ہوکر بطور فلسطین کے وزیر خارجہ پاکستان آئے تھے جس کو مشرف کی حکومت میں خوش آمدید کہا گیا تھا اور 3 ملین ڈالر امداد دی تھی کیونکہ مسئلہ فلسطین سیاسی مقاصد سے الگ ہے اور اس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں ۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے اسرائیلی جنگی جرائم پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے سینئر وکلاء کو بین الاقوامی جنگی جرائم کی عدالت میں فلسطین اور کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی تجویز بھی پیش کی ۔
انھوں نے صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ جو گذشتہ 14 سالوں سے اسرائیلی غیر قانونی ناکہ بندی کا شکار ہے کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرناچاہئے ۔
انھوں نے پاکستان کی جانب سے امریکا کو زمینی اور فضائی حدود کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز جرائم میں شریک جرم ہے پاکستان کو کسی صورت امریکا کو یہ سہولیات فراہم نہیں کرنا چاہئے امریکا یہ جنگ ہار چکا ہے ۔
انھوں نے بتایا مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے پاکستان کی کاوشوں میں سب سے اہم پارلیمانی سفارتکاری ہے جس کو مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا ۔
انھوں نے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو سلام پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں اسرائیل کے خلاف تین جنگیں ہوئیں ہیں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی جنگ ایک ماہ سے زائد جاری رہی تاہم حماس کے ساتھ جنگ صرف 11 روز جاری رہی ، حماس نے اسرائیل کو سیاسی ، اخلاقی اور قانونی تینوں محاضوں پر شکست دی ہے
انھوں نے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کو ترکی اور قطر کے ساتھ مل کر اظہار یکجہتی کے طورپرغزہ جانا چاہئے اور وہاں امدادی سرگرمیاں شروع کرنا چاہئیںa