کراچی ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) دنیا کی مظلوم ملت فلسطین کے ساتھ بین الاقوامی برادری نے بھی کیا عجب کھیل اور تماشہ لگا رکھا ہے ایک طرف یہی عالمی برادری امریکی سرپرستی میں صہیونیوں کے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف یہ عالمی برادری یکجہتیَ فلسطین کے نام پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کی کوشش بھی کرتی ہے ۔ یعنی آئینہ ک ایک طرف مجرم اور دوسری طرف منصف بھی۔
ہر سال نومبر کی انتیس تاریخ کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتیَ کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور کفن چوروں کی انجمن یعنی اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں بھی اس دن کو منانے کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اس دن کی اصل حقیقت اور تاریخ کے مطابق نہ تو اقوام متحدہ کوئی موثر کردار ادا کر رہی ہے اور نہ ہی عالمی برادری اور پھر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے پاس تو پہلے ہی شام ، یمن، لبنان، اور دیگر علاقوں میں جنگیں اور محاذ کھولنے کا بہت بڑا ٹاسک موجود ہے تو ان کو کیا پڑی ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین کی فکر کریں یا مقبوضہ کشمیر کی فکر کریں ۔
اب حد تو یہ ہے کہ انہی مسلمان عرب ممالک کے چند حکمرانوں نے فلسطینی قوم اور اپنے ملک کی عوام کی خواہشات کے بر عکس صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اور اسرائیل کوتسلیم کرنا بھی شروع کر دیا ہے ۔ مزید ساتھ ساتھ دیگر مسلمان ممالک پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ بھی اسرائیل کے تسلیم کر لیں ۔ مثال کے طور پر حا ل ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں ممالک کا نام نہ لیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
بہر حال جہاں تک اب بات فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کی ہے تو اس سال بھی یقینا اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں اس عنوان سے پروگرام منعقد کیا جائے گا یا شاید کورونا کا بہانہ بنا کر اب یہ بھی کہہ دیا جائے کہ اس سال ضرورت ہی نہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اقوام متحدہ ہی ہے کہ جس کی قرار داد 181کے تحت فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ سنہ1947ء میں کیا گیا تھا ۔ سوال تو یہاں پر اٹھتا ہے کہ آخر کیوں اقوام متحدہ نے عالمی استعماری قوتوں کی ایماء پر ایک ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کیا کہ جس کو آج ستر سال سے نہ صرف فلسطینی قوم بھگت رہی ہے بلکہ اسرائیل کے ناجائز وجود کے باعث پورے خطے میں بے امنی اور دہشت گردی سمیت قتل وغارت اور عدم استحکام موجود ہے ۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی سربراہی میں فلسطینی قوم کا محاصرہ کیا جا رہاہے ۔ غزہ کا فزیکل محاصرہ تو پہلے ہی تیرہ برس سے جاری ہے کہ جہاں کے بیس لاکھ عوام کی زندگیوں کو داءو پر لگا دیا گیا ہے ۔ اب اسی قسم کا انسان شکن محاصرہ یمن کے عوام کو بھی سامنا ہے ۔ آج فلسطین کا مسئلہ دفن کرنے کی امریکی کوشش سر توڑ کر بول رہی ہے ۔ اس کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امت مسلمہ کے میر جعفر اور میر صادق آج بھی عرب حکمرانوں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں ۔ امریکی قیادت میں جاری فلسطینی قوم کے محاصرہ میں فلسطینی مظلوم قوم کی مشکلات میں اضافہ ہو رہاہے ۔ ایک طرف فلسطینیوں سے ان کا وطن چھین لیا گیا ہے ۔ ان کو گھروں سے بے گھر کیا گیا ہے ۔ ان کے مال و متا ع پر قبضہ کیا گیا ہے ۔ یہاں ان کی مذہبی آزادیوں کو سلب کر لیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے قبلہ اول کی آئے روز توہین اور بے حرمتی کی جا رہی ہے ۔
ان سب حالات کے باوجود بھی فلسطین کی مظلوم مگر مضبوط ارادہ رکھنے والی قوم صہیونی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہوئی ہے ۔ فلسطین میں بسنے والا ایک ایک بچہ یہ عزم کئے ہوئے ہے کہ غاصب اسرائیل کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ سیکڑوں فلسطینی صہیونی قید و بند میں ہیں ۔ لیکن فلسطینیوں کا یہ فیصلہ ہے کہ چند عرب حکمران تو کیا اگر پوری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے اور فلسطین میں بسنے والے عوام اسرائیل کو تسلیم نہ کریں تو اسرائیل کی حیثیت غاصب ہی رہے گی ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو امریکہ اور اسرائیل بھی بخوبی سمجھتے ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عرب دنیا کی جانب سے اسرائیل دوستی اور تعلقات نے جہاں مسلم دنیا میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کی حمایت کو بھی کمزور کر دیا ہے ۔ آج عرب لیگ جیسے ادارے کی صورتحال یہ ہے کہ اس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی صدارت قبول کرنے کے لئے کوئی ملک آمادہ ہی نہیں ہے ۔ حقیقت میں عرب لیگ کا یہ بکھراءو عرب لیگ کے ماضی قریب کے ان فیصلوں کے نتیجہ میں سامنے آیا ہے کہ جن فیصلوں میں ظالم قوتوں کی حمایت کی گئی تھی ۔ یہ مسلم دنیا میں وہ عرب ممالک ہیں کہ جن کی تاریخ میں اسرائیل کے خلاف جنگ اور فلسطین کی حمایت میں متعدد قرار دادیں ملتی ہیں لیکن آج ان ممالک کے حکمران اپنے ہی کئے ہوئے عہد و پیمان سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ کئی ایک عرب ممالک کی حالت تو دیکھیں کہ داخلی انتشار کا شکار ہو چکے ہیں ۔ کیا یہ انتشار ا ن کا خود ایجاد کردہ ہے;238; ہر گز نہیں ۔ یہ انتشار بھی ان کو انہی استعماری قوتوں نے تحفہ میں دیا ہے جن کی غلامی انہوں نے قبول کی ہے ۔ یہاں پر مشرق کے عظیم مفکر اور استاد جناب حضرت علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ ، یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہو تو، مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ۔
دوسری طرف عرب حکمرانوں کو دیکھیں تو علاقائی جنگوں میں مصروف ہیں ، یمن کے خلاف محاذ ہے ۔ قطر کے خلاف معاشی محاذ کھولا گیا ہے ۔ اسی طرح کئی ایک اور محاذ کھڑ ے کر دئیے گئے ہیں جس کا براہ راست اثر صرف اور صرف فلسطین کے مسئلہ اور اس کی عالمی حمایت پر پڑ رہاہے ۔ فلسطینی قوم کا ایک محاصرہ جو امریکی قیادت میں القدس کی شناخت تبدیل کرنے اور صہیونیوں کی آباد کاریوں کےء ذریعہ انجام پا رہا ہے تو دوسری طرف یہ محاصرہ عرب دنیا کے حکمرانوں کی غفلت مجرمانہ کے باعث انجام پذیر ہے ۔ بہر حال انتیس نومبر کو کفن چوروں کی انجمن فلسطینی قوم کے ساتھ یکجہتی کا دن منائے گی لیکن یہاں یہ جملہ ضرور صادر آتا ہے کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔ آج غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل اور اس کے ہمنواءوں نے فلسطین کے مسئلہ کو ختم کرنے اور ایک ریاستی حل کی کوشش شروع کر دی ہے جبکہ حقیقت میں فلسطین ایک ریاست ہی ہے البتہ اسرائیل کا وجود ناجائز اور جعلی ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک سنجیدگی کے ساتھ فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں غور کریں ۔ عرب دنیا کے حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ اسرائیل ایک ایسا دیمک ہے جو نہ صرف فلسطین کو چٹ کرنا چاہتا ہے بلکہ ہر اس ریاست کو تہس نہس کرنا چاہتا ہے جو اس کے ساتھ دوستی انجام دے ۔ فلسطینی قوم کا محاصرہ توڑنے کے لئے دنیا بھر کے حریت پسند فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور آخری دم تک اپنی جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان میں بھی جہاں حکومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں آنے والے بیانات خوش آئند ہیں وہاں پاکستان کی معروف این جی او فلسطین فاءونڈیشن پاکستان بھی خراج تحسین کے قابل ہے جس نے پاکستان کی سرزمین پر فلسطینیوں اور مظلوم کشمیری عوام کے مسائل کو اجاگر کیا ہے ۔
تحریر:ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان